شان سلطان الفقر
ہر دور میں دنیا میں ایک ’’انسانِ کامل‘‘ موجود ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کا خلیفہ اور امانتِ الٰہیہ کا حامل ہوتا ہے۔ان تمام میں خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وصال مبارک سے لے کر قیامت تک سات ہستیاں ایسی ہیں جو سلطان الفقر کے مرتبہ پر فائز ہیں۔ وہ اولیائے کرام میں سب سے ممتاز ہیں اور ان کا قدم تمام اولیا اللہ غوث و قطب کے سر پر ہے۔ اس رازسے سب سے پہلے حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ ﷲ علیہ نے پردہ اٹھایا۔ آپؒ اپنی مشہورِ زمانہ تصنیف رسالہ روحی شریف میں ان ارواح کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
بدان کہ چوں نورِ احدی از حجلہء تنہائیِ وحدت بر مظاہر ِکثرت ارادہ فرمود، حسنِ خود را جلوہ بصفائیِ گرم بازاری نمود۔ بر شمعٔ جمال پروانہء کونین بسوزید و نقابِ میمِ احمدی پوشیدہ صورتِ احمدی گرفت و از کثرتِ جذبات و ارادات، ہفت بار بر خود بجنبید و ازاں ہفت ارواحِ فقرا باصفا، فنا فی اللہ، بقا باللہ محوِ خیالِ ذات، ہمہ مغز بے پوست پیش از آفرینشِ آدم علیہ السلام ہفتاد ہزار سال غرقِ بحرِجمال بر شجر ِ مرآۃ الیقین پیدا شدند۔ بجز ذاتِ حق از ازَل تا ابد چیزے ندیدند و ماسویٰ اللہ گاہے نشنیدند، بحریمِ کبریا دائم بحر الوصالِ لازوال، گاہے جسدِنوری پوشیدہ بہ تقدیس و تنزیہہ می کوشیدند و گاہے قطرہ در بحر و گاہے بحر در قطرہ، و ردائے فیض ِ عطا ’’اِذَا تَمَّ الْفَقْرُ فَھُوَ اللّٰہُ‘‘برَ اِیشان۔ پس بحیاتِ ابدی و تاجِ عزّ سرمدی ’’اَلْفَقْرُ لَا یُحْتَاجُ اِلٰی رَبِّہٖ وَلاَ اِلٰی غَیْرِہٖ‘‘ معزز و مکرم، از آفرینشِ آدم علیہ السلام و قیامِ قیامت ہیچ آگاہی ندارند وقدمِ ایشاں برسرِ جملہ اولیا وغوث و قطب۔ اگر آنہار اخدا خوانی بجاوَاگر بندۂ خدا دانی روا۔ عَلِمَ مَنْ عَلِمَ۔ مقامِ ایشان حریمِ ذاتِ ِکبریا و از حق ماسویٰ الحق چیزے ناطلبید ند و بد نیائے دنی و نعیمِ اُخروی، حورو قصورِبہشت، بکرشمہیٰ نظر ندیدند و ازاں یک لمعہ کہ موسیٰ علیہ السلام در سراسیمگی رفتہ و طور درہم شکستہ، در ہر لمحہ و طرفتہ العین ہفتاد ہزار بار لمعاتِ جذباتِ انوارِ ذات بر ایشاں وارد و دم نہ زدند و آہے نہ کشیدند وَ ھَلْ مِنْ مَّزِیْد می گفتند۔ وایشاں سلطان الفقر و سیدّ الکونین اند۔ (رسالہ روحی شریف)
ترجمہ: جان لے جب نورِ احدی نے وحدت کے گوشۂ تنہائی سے نکل کر کائنات (کثرت) میں ظہور کا ارادہ فرمایا تو اپنے حسن کی تجلی کی گرم بازاری سے (تمام عالموں کو) رونق بخشی۔ اس کے حسنِ بے مثال اور شمعٔ جمال پر دونوں جہان پروانہ وار جل اٹھے اور میم احمدی کا نقاب اوڑھ کر صورتِ احمدی اختیار کی۔ پھر جذبات اور ارادات کی کثرت سے سات بار جنبش فرمائی جس سے سات ارواحِ فقرا باصفا فنا فی اللہ بقا باللہ، تصورِ ذات میں محو، تمام مغز بے پوست حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش سے ستر ہزار سال پہلے اللہ تعالیٰ کے جمال کے سمندر میں غرق آئینہ یقین کے شجر پر رونما ہوئیں۔ انہوں نے ازل سے ابد تک ذاتِ حق کے سوا کسی چیز کی طرف نہ دیکھا اور نہ غیر حق کو کبھی سنا۔ وہ حریمِ کبریا میں ہمیشہ وصال کا ایسا سمندر بن کر رہیں جسے کوئی زوال نہیں۔ کبھی نوری جسم کے ساتھ تقدیس و تنزیہہ میں کوشاں رہیں، کبھی قطرہ سمندر میں اور کبھی سمندر قطرہ میں اور اِذَا تَمَّ الْفَقْرُ فَھُوَ اللّٰہ کے فیض کی چادر ان پر ہے۔ پس انہیں ابدی زندگی حاصل ہے اور وہ اَلْفَقْرُ لَا یُحْتَاجُ اِلٰی رَبِّہٖ وَلَا اِلٰی غَیْرِہٖ کی جاودانی عزت کے تاج سے معزز و مکرم ہیں۔ انہیں حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش اور قیامِ قیامت کی کچھ خبر نہیں ۔ ان کا قدم تمام اولیا اللہ، غوث و قطب کے سر پر ہے۔ اگر انہیں خدا کہا جائے تو بجا ہے اور اگر بندۂ خدا سمجھا جائے تو بھی روا ہے۔ اس راز کو جس نے جانا اس نے پہچانا۔ اُن کا مقام حریمِ ذاتِ کبریا ہے۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ سے سوائے اللہ تعالیٰ کے کچھ نہ مانگا، حقیر دنیا اور آخرت کی نعمتوں، حور و قصور اور بہشت کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا اور جس ایک تجلی سے حضرت موسیٰ علیہ السلام سراسیمہ ہو گئے اور کوہِ طور پھٹ گیا تھا، ہر لمحہ ، ہر پل جذباتِ انوار ِ ذات کی ویسی تجلیات ستر ہزار بار ان پر وارِد ہوتی ہیں لیکن وہ نہ دم مارتے ہیں اور نہ آہیں بھرتے ہیں بلکہ مزید تجلیات کا تقاضا کرتے رہتے ہیں۔ وہ سلطان الفقر (فقر کے بادشاہ) اور دونوں جہانوں کے سردار ہیں ۔
یہ مبارک ارواح سات ہیں، اِن کے ناموں کا انکشاف کرتے ہوئے حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
یکے روحِ خاتونِ قیامت (رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا)۔ یکے روحِ خواجہ حسن بصری (رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہٗ)۔ یکے روح شیخِ ما،حقیقت الحق، نورِمطلق، مشہود علی الحق، حضرت سیدّ محی الدین عبد القادر جیلانی محبوبِ سبحانی (رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہٗ) ویکے روحِ سلطانِ انوار، سرالسرمد حضرت پیر عبدالرزاق فرزندِ حضرت پیر دستگیر (قدس سرّہُ العزیز) ویکے روحِ چشمۂ چشمانِ ھاھویت، سر اَسرارِ ذاتِ یاھو، فنا فی ھو فقیر باھو (قدس اللہ سرّہٗ) و دو روحِ دیگر اولیا۔ بحرمتِ یمنِ ایشاں قیامِ دارین۔ تا آنکہ آں دو روح از آشیا نۂ وحدت بر مظاہرِکثرت نخواہند پرید، قیامِ قیامت نخواہد شد۔ سراسر نظرِ ایشاں نورِ وحدت و کیمیائے عزّت بہرکس پرتوُِ عنقائے ایشاں اُفتاد، نورِ مطلق ساختند، احتیاجے بریاضت و ورد اورادِ ظاہری طالبان را نہ پرداختند۔ (رسالہ روحی شریف)
ترجمہ: ان میں ایک خاتونِ قیامت(فاطمۃ الزہرا) رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روح مبارک ہے۔ ایک حضرت خواجہ حسن بصری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی روح مبارک ہے ۔ایک ہمارے شیخ، حقیقتِ حق، نورِ مطلق، مشہود علی الحق حضرت سیدّ محی الدین عبد القادر جیلانی محبوبِ سبحانی قدس سرہُ العزیز کی روح مبارک ہے۔ اور ایک سلطانِ انوار سرّالسرمد حضرت پیر عبدالرزاق فرزندِحضرت پیر دستگیر (قدس سرہُ العزیز) کی روح مبارک ہے۔ ایک ھاھویت کی آنکھوں کا چشمہ سرّ اسرار ذاتِ یاھو فنا فی ھو فقیر باھو (قدس سرّہُ العزیز ) کی روح مبارک ہے اور دو ارواح دیگر اولیاکی ہیں۔ اِن ارواحِ مقدسہ کی برکت و حرمت سے ہی دونوں جہان قائم ہیں۔ جب تک یہ دونوں ارواح وحدت کے آشیانہ سے نکل کر عالمِ کثرت میں نہیں آئیں گی قیامت قائم نہیں ہوگی۔ ان کی نظر سراسر نورِ وحدت اور کیمیا ئے عزت ہے۔ جس طالب پر ان کی نگاہ پڑ جاتی ہے وہ مشاہدۂ ذاتِ حق تعالیٰ ایسے کر نے لگتا ہے گویا اس کا سارا وجود مطلق نور بن گیا ہو۔ انہیں طالبوں کو ظاہری وردوظائف اور چلہ کشی کی مشقت میں ڈالنے کی حاجت نہیں ہے ۔
حقیقتِ سلطان الفقر
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ سلطان الفقر کی حقیقت کے بارے میں فرماتے ہیں:
جناب سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے معراج کی رات حق تعالیٰ کے حضور میں سلطان الفقر سے ملاقات کی، اس سے بغلگیر ہوئے اور سر سے پاؤں تک روبرو ہو کر فقر سے لپٹ گئے تب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا وجود فقر میں بدل گیا۔ (جامع الاسرار)
جب سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم معراج پر تشریف لے گئے تو پہلے براق پر سوار ہوئے اور پھر حضرت جبرائیل علیہ السلام نے دونوں جہان اور اٹھارہ ہزار قسم کی مخلوق کو ہر طرح سے آراستہ و پیراستہ کر کے دکھایا لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے آنکھ اٹھا کر بھی ان کی طرف نہ دیکھا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَ مَا طَغٰی (سورۃ النجم۔13)
ترجمہ: آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی آنکھ (دیدارِ الٰہی سے) نہ پھری اور نہ ہی (مقررہ) حد سے بڑھی۔
یہ حالت تمام اعلیٰ اور ادنیٰ مقامات پر رہی اسی لیے حق تعالیٰ کے حضور قابَ قوسین کے مقام پر پہنچے اور دو کے مابین پیاز کے چھلکے کا سا پردہ رہ گیا۔ جب حبیب عین بعین ہوئے تو آواز آئی ’’اے میرے حبیب (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) میں نے دونوں جہان آپ پر نثار کر دئیے اور دونوں جہان اور اٹھارہ ہزار عالم کا نظارہ آپ کو کرا دیا، ان میں کیا چیز آپ کو پسند آئی جو آپ کو عطا کی جائے؟‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے عرض کی’’اللہ تعالیٰ مجھے فقر عطا کیا جائے کیونکہ فقر کے برابر کسی کو قربِ الٰہی اور مقامِ فنا فی اللہ حاصل نہیں ہے اور ایسا قرب کسی اور چیز سے حاصل نہیں ہوتا۔‘‘ یہی فقر ’سلطان الفقر‘ ہے۔ جو شخص ظاہر و باطن میں اس فقر کو دیکھ لیتا ہے وہ صاحبِ اختیار ہو جاتا ہے اور مرتبۂ محمدیؐ اس پر غالب آجاتا ہے۔ (جامع الاسرار)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’اے محمد(صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم)! میں نے سلطان الفقر کا مرتبہ آپ کو عطا کیا ہے اور آپ کے فقرا کو بھی اور آپ کے اہلِ بیتؓ کو بھی اور آپ کے متقی اور صالح امتیوں کو بھی۔‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے عرض کیا کہ ہزار ہزار شکر ہے۔ (جامع الاسرار)
سلطان الفقر کی عظمت
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ سلطان الفقر کی عظمت اور شان بیان کرتے ہوئے اپنی فارسی تصانیف میں فرماتے ہیں:
نورِ سلطان الفقر آفتاب سے بھی روشن تر ہے اور اس کی خوشبو مشک، گلاب اور عنبر سے بھی زیادہ خوشبودار ہے۔ جو سلطان الفقر کو خواب میں دیکھ لے وہ لایحتاج فقیر بن جاتا ہے اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اسے باطن میں دستِ بیعت فرما کر تعلیم و تلقین کرتے ہیں۔ میرا یہ قول میرے حال کے عین مطابق ہے۔(کلید التوحید کلاں)
جان لے کہ سلطان الفقرا کی ابتدا غیر مخلوق نورِ ایمان ہے اور انتہا غیر مخلوق نورِ ذاتِ رحمن ہے۔ (قربِ دیدار)
ہزاروں میں سے کوئی ایک ہی ہوتا ہے جو سلطان الفقر کی لازوال معرفت حاصل کرتا ہے اور عین جمالِ حق کے وصال سے فقر کی انتہا تک پہنچ کر فقر کا مشاہدہ کرتا ہے۔ پس معلوم ہوا کہ ایسے بہت سے لوگ ہیں جو فقر کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہیں لیکن ہزاروں میں سے کوئی ایک ہی فقر کی تمامیت تک پہنچتا ہے۔ آخر فقر کسے کہتے ہیں اور فقر کیا ہے؟ فقر ایک نور ہے کہ جس کا نام سلطان الفقر ہے اور وہ اللہ کی نگاہ اور اس کی بارگاہ میں ہمیشہ منظور ہوتا ہے۔ (امیر الکونین)
حضرت خضر علیہ السلام کی مجلس اُسے نصیب ہوتی ہے جس کی باطنی خضر سے ملاقات ہو جائے، باطنی خضر ’سلطان الفقر‘ کو کہتے ہیں۔ جس کی ملاقات باطنی خضر سے ہو جائے اُسے علمِ ظاہری بھول جاتا ہے کیونکہ اس کے باطن کو علمِ باطن، نورِ معرفت اور توحیدِ الٰہی کی تجلیات اس قدر معمور کر دیتی ہیں کہ وہ ہر وقت قرب و وصال کی حضوری میں غرق رہتا ہے۔ (محک الفقر کلاں)
فقر کے مراتب سے وہی شخص واقف ہوتا ہے جو فقرتک پہنچا ہو، جس نے فقر کی لذت چکھی ہو اور فقر اختیار کیا ہو اور ’سلطان الفقر‘ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہو۔ (اسرارِ قادری)
پس دیو سلیمانی و بادشاہ نفس اور شیطان کو فنا فی اللہ کے زندان میں ڈالنا اور اس کے گلے میں قرآن، نص و حدیث، تفسیر، معرفتِ الٰہی اور روشن ضمیری کی زنجیر ڈال کر ہمیشہ کے لیے قید کرنا سلطان الفقر عارفین کا کام ہے۔ (کلید التوحید کلاں)
جو یہ چاہتا ہو کہ وہ دریائے وحدانیتِ الٰہی تک پہنچ جائے اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری سے دائمی طور پر مشرف و حاضر رہے اور سلطان الفقر سے ملاقات کرے کیونکہ صورتِ سلطان الفقر نورِ حق ہے اور سلطان الفقر فنا فی اللہ ہوتے ہیں جو ہمیشہ قربِ خدا میں اور حضور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صحبت میں رہتے ہیں، (تو وہ جان لے کہ) آدمی کے وجود پر کم و بیش تیس کروڑ تیس لاکھ بال ہیں اور ہر بال کے اندر شیطان کا گھر ہے جو کہ خواہشات سے پُر ہے اور اس کی اساس دنیا ہے جو ہر خواہش کو پروان چڑھاتی ہے اور لذتِ دنیا سے پانی کی مثل سیراب کرتی ہے۔ لہٰذا جو سب سے پہلے دل میں سے حب ِ دنیا کو باہر نہیں نکالتا وہ ہرگز اللہ کا قرب نہیں پا سکتا نہ ہی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجلس میں پہنچ سکتا ہے۔ (کلید التوحید کلاں)
جو مقامِ ترک و توکل، تسلیم و رضا، تجرید و تفرید، توحید، فنا و بقا اور صفا کا مرتبہ حاصل کر لیتا ہے وہ مراقبہ و خواب میں مجلسِ انبیا و اولیا یا مجلسِ سلطان الفقر میں حاضر رہتا ہے۔ (کلید التوحید کلاں)
فقر کا انتہائی مقام فنا فی اللہ ہے جو نہ تو عقل اور چالاکی سے ہاتھ آتا ہے اور نہ ذکر، فکر اور مراقبہ سے مگر مرشد ِکامل چاہے تو طالب کو کبھی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بارگاہ میں، کبھی مقامِ فنا فی اللہ کی حضوری میںاور کبھی ’سلطان الفقر‘ فنا فی اللہ کی صحبت میںلے جاتا ہے۔ جس شخص کے لیے یہ تینوں مراتب ایک ہو جائیں وہ فقر کی تمامیت کو پہنچ جاتا ہے۔ (عقلِ بیدار)
جب طالب مراتبِ رضا و قضا سے گزر کر وحدتِ لقا کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو قربِ حضور سے ایک صورتِ نور پیدا ہوتی ہے جو نور سے روشن تر اور بہشت و بہار کی ہر نعمت سے زیادہ حسین ہوتی ہے۔ معرفت و مشاہدۂ دیدار میں محو اورمحبتِ الٰہی میں سوختہ اس صورت کا نام ’سلطان الفقر‘ ہے۔ یہ صورت عاشقِ ہوشیار کے سامنے ظاہر ہوتی ہے اور اس سے بغل گیر ہو جاتی ہے جس سے وہ سر سے قدم تک لایحتاج ہو جاتا ہے اور اس کے وجود میں دنیا و عقبیٰ کا کوئی غم باقی نہیں رہتا۔ (نور الہدیٰ کلاں)
آدمی اس وقت تک مراتبِ فقر تک نہیں پہنچ سکتا جب تک کہ باطن میں سر الٰہی کی صورتِ خاص ’سلطان الفقر‘ اُسے اپنے ساتھ بغل گیر کرکے زیارت اور تعلیم و تلقین سے مشرف نہیں کر لیتی۔ چاہے کوئی ریاضت کے پتھر سے سر ہی کیوں نہ پھوڑتا پھرے جب تک ’سلطان الفقر‘ کی طرف سے اشارہ نہیں ہو گا وہ فقر کی خوشبو تک بھی نہیں پہنچ سکے گا کہ ’سلطان الفقر‘ کی وہ باطنی صورت ہر وقت حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجلس میں حا ضر رہتی ہے۔ (محک الفقر کلاں)
سلطان الفقر کی مجلس توحید ِ باری تعالیٰ کا ایک دریا ہے۔ جوطالب اس دریاکے کنارے پر پہنچ جاتا ہے وہ صاحبِ کنار (باوصال) ہو جاتا ہے۔ (محکم الفقرا)
معراج کی رات جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سدرۃ المنتہیٰ کے مقام پر پہنچے تو وہاں صورتِ فقر کا مشاہدہ کیا اور مراتبِ ’سلطان الفقر‘ کی لذت سے لطف اندوز ہوئے، فقر نورِ الٰہی سے باطن کو معمور فرمایا اور قابَ قوسین کے مقام پر اللہ تعالیٰ کے قرب و وصال سے مشرف ہو کر ذاتِ حق تعالیٰ سے ہم کلام ہوئے۔ (محک الفقر کلاں)
فقیرِمحمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم استقامت و مضبوطی سے فقر فنا فی اللہ میں قدم رکھتا ہے کہ اس کے سر پر فقر کانام ہے اور فقر کے سر پر اللہ کا نام ہے یعنی فقرا اسمِ اللہ سے فقیر بنتے ہیں اور اسمِ اللہ ہی سے شہباز بنتے ہیں۔ راہِ فقر میں اگر کوئی ثابت قدم رہتا ہے تو وہ صاحبِ راز حقیقی بن جاتا ہے۔ اگر کوئی فقر اور اسمِ اللہ سے بر گشتہ ہو جاتا ہے اور ہمت و استقامت کو چھوڑ کر دنیا و اہلِ دنیا کی طرف مراجعت کرتا ہے (لوٹ جاتا ہے) تو وہ مرتبہ شہبازی فقر و راز سے منہ موڑتا ہے۔ وہ گویا چیل ہے جس کی نظر مردار پر اٹکی ہوئی ہے اس لیے وہ دونوں جہان میں ذلیل و خوار ہے۔ اس کا دِل دنیا سے سیر نہیں ہوتا، اُس کی آنکھوں میں دنیا کی بھوک بھری رہتی ہے۔ وہ فقر ِحقیقی اور ’سلطان الفقر تحقیقی‘ (سلطان الفقر کی حقیقت) تک نہیں پہنچ سکتا، وہ طالبِ دنیا بلکہ زندیق ہے۔ (محک الفقر کلاں)
جو آدمی باطن میں سلطان الفقر کے چہرے کی زیارت کر لیتا ہے وہ لایحتاج ہو کر صاحبِ لفظ ہو جاتا ہے۔ (محک الفقر کلاں)
جاننا چاہیے کہ معرفتِ فقر کے مختلف مراتب کے لیے انبیا، صحابہؓ اور اولیا اللہ میں سے ہر ایک نے اللہ تعالیٰ سے التجا کی لیکن ماسویٰ حضرت احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کوئی بھی فقر کی تمامیت کو نہیں پہنچا اور کسی نے سلطان الفقر کی انتہا پر قدم نہیں رکھا مگر شاہ محی الدین غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ بحکمِ الٰہی اور بہ اجازت سیّدِعالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فقر کے ابتدائی اور انتہائی مراتب اور مرتبۂ سلطان الفقر کو اپنے عمل، قبض اور تصرف میں لائے۔ (توفیق الہدایت)
ایک غلط فہمی کا ازالہ
اس سلسلہ میں سب سے بڑا اعتراض یہ کیا جا تا ہے کہ رسالہ روحی شریف میں دنیا کے تمام اولیا کرام میں سے صرف سات اولیائے کرام کو سلطان الفقر اور سیدّ الکونین کے جلیل القدر لقب سے یاد کیا گیا ہے اور ان میں صحابہ کرامؓ، آئمہ و مجتہدین اور دیگر اولیا ئے مقربین میں سے کسی کو بھی شامل نہیں کیا گیا۔
پہلے اس مسئلہ کو منطق اور دلائل سے سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جیساکہ ظاہری دنیا میں مختلف فنون اور کمالات ہیں، ایک ہنر اور کمال کا دوسرے ہنر اور کمال سے کوئی مقابلہ نہیں مثلاً کوئی معاشیات اور اکاؤنٹنگ میں ماہر ہے تو کوئی فزکس، کیمسٹری یا بیالوجی میں ید ِطولیٰ رکھتا ہے۔ کسی کو کرکٹ اور کسی کوہاکی میں کمال حاصل ہے تو کوئی صحافت، خوش نویسی اور دوسرے شعبوں میں ماہر ہے۔ یعنی ہر فن میں خاص صاحبِ کمال انسان ہوتے ہیں اور ہر انسان کے لئے ایک خاص فن ہوتا ہے۔ سو مختلف فنون میں ماہر لوگوں کی آپس میں نہ تو کوئی نسبت قائم کی جاسکتی ہے اور نہ ہی مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً یہ نہیں کہا جا سکتا کہ فلاں ڈاکٹر اورکھلاڑی میں سے کون بہتر ہے۔
اسی طرح باطنی دنیا کے مراتب، کمالات اور فنون کے مختلف شعبے اور قسمیں ہیں جیسے کہ بعض اولیا صدق میں، بعض عدل و محاسبہ نفس میں، بعض حیا میں، بعض زُہد میں، بعض ترک میں، بعض ریاضت میں، بعض صبر میں، بعض شکر میں، بعض جوُد و سخا میں اعلیٰ مراتب کے حامل ہوئے۔ اسی طرح انبیا علیہم السلام میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام زاہد البشر، حضرت داؤد علیہ السلام عبد البشر اور حضرت ایوب علیہ السلام ا صبر البشر ہوئے یعنی ہر نبی کسی خاص باطنی صفت اور مرتبہ میں صاحبِ کمال ہوا ہے۔
’فقر‘ بھی ایک خاص باطنی مرتبہ اور کمال ہے، اس کے مقابلہ میں باطن میں نہ کوئی کمال ہے اور نہ مرتبہ اور یہ خزانہ تمام انبیا کرام ؑمیں سے بدرجہ اُتم ّہمارے آقائے نامدار حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا (جس کا بیان حقیقتِ سلطان الفقر کے عنوان میں گزر چکا ہے)۔ فقر کے باطنی کمال میں کوئی نبی اور کوئی رسول آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ہمسر اور برابر نہیں ہو سکتا ہے۔ اسی پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فخر فرمایا ہے اور فقر کی بدولت ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تمام انبیا اور مرسلین کے درمیان سر بلند اور ممتاز ہیں۔ مقامِ غور بات یہ ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام تمام ظاہری اور باطنی کمالات کے جامع ہیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے کسی کمال پر فخر نہیں فرمایا یعنی نہ شجاعت پر، نہ سخاوت پر، نہ تقویٰ و صبر پر، نہ ترک و توکل پر اور نہ فصاحت و بلاغت پر، آپ نے صرف ’فقر‘ پر فخر کا اظہار فرمایا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ فقر ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا اصل ترکہ اور ورثہ ہے۔ غرض باطن میں صدق و وفا، عدل و محاسبہ نفس، حیا، صحابیت، امامت، شہادت، فقہ، اجتہاد، ولایت، غوثیت، قطبیت، صدیقیت، تقویٰ، زہد، صبر، شکر، تسلیم، رضا، خوف، رجا، جود و کرم، علم، شجاعت اور شفقت و غیرہ کے بے شمار الگ الگ منصب اور مراتب ہیں لیکن فقران سب سے اعلیٰ اور افضل مرتبہ ہے۔
اب آتے ہیں اعتراضات کی طرف ۔اس فقیر کو اپنی زندگی میں کچھ بے بصیرت لوگوں کی طرف سے ’’مرتبہ سلطان الفقر‘‘ پر جن اعتراضات کا سامنا کرنا پڑا وہ مندرجہ ذیل ہیں:
(1) اِن سات ہستیوں میں بابِ فقر، امام الفقر حضرت علی کرم اللہ وجہہ جو قادری، چشتی اور سہروردی سلاسل کے امام ہیں اور یہ سلاسل اِن ہی کے وسیلہ سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام تک پہنچتے ہیں،کا نام شامل نہیں ہے۔ کیا اُن کو وراثتِ فقر منتقل نہیں ہوئی؟
(2) کیا حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے یارِ غار، امامِ صدیقین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ جن سے سلسلہ نقشبندیہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام تک پہنچتا ہے، کو فقر منتقل نہیں ہوا؟
(3) کیا دیگر دو خلفائے راشدین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کو فقر منتقل نہیں ہوا؟
(4) کیا امامینِ پاک حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ اور حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ورثہ فقر نہیں ملا؟
(5) کیا صحابہ کرامؓ جو تمام امت میں سب سے اعلیٰ ترین طبقہ ہے، کو فقر نہیں ملا؟
(6) کیا تمام مجتہدین اور امت کے دوسرے اولیا کرام کو فقر نہیں ملا؟
ان تمام اعتراضات کا جواب سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ خود اپنی تصانیف میں فرماچکے ہیں۔ ہم انہی حوالہ جات کو یہاں پیش کر رہے ہیں۔
فقر اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم
حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ’’ پیر چار ہیں۔‘‘
چار پیروں کو شناخت کر لو کہ اوّل صدیقوں کے پیر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہٗ، دوم عادلوں کے پیر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہٗ، تیسرے اہلِ حیا کے پیر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہٗ اور فقرا کے پیر حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہیں۔ (جامع الاسرار)
صدیقؓ صدق و عدل عمرؓ و پرُ حیا عثمانؓ بود
گوئی فقرش از پیغمبرؐ شاہِ مردانؓ می ربود
ترجمہ: حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ صاحبِ صدق ہیں، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ صاحبِ عدل ہیں، حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ پرُ حیا ہیں اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ شاہِ مرداں نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے فقر حاصل کیا ہے۔ (عین الفقر،محک الفقر کلاں)
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ اس بیت میں فرماتے ہیں کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وراثت اور متاع یعنی فقر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو منتقل ہوئی۔ آپؓ بابِ فقر ہیں اور ورثہ فقر کو منتقل کرنے والے ہیں اس لیے یہ اعتراض قابلِ توجہ نہیں ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کو صدق، حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کو عدل اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کو حیا کے اعلیٰ ترین مراتب نصیب ہوئے۔ پھر آپ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ طالبِ مولیٰ کو صدق میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی طرح، عدل اور محاسبہ نفس میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی طرح، شرم و حیا میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ اور فقر میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی طرح ہونا چاہیے۔ یہ چاروں مراتب یکساں نہ ہوں تو فقر کا کامل مرتبہ حاصل نہیں ہوتا۔
حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ نے حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر فاروق، حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہم اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو ’چار پیر‘ فرمایا ہے کیونکہ چاروں کی ’توجہ‘ سے باطن میں فقر کی تکمیل ہوتی ہے لیکن ’بابِ فقر‘ حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہی ہیں۔ حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ کے بیعت کے واقعہ سے اس بات کی تصدیق ہوجائے گی کہ اِن ’چار پیروں‘ کی ’توجہ‘ سے کیا مراد ہے۔
ایک روز کا ذکر ہے کہ آپؒ(سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ) شورکوٹ کے گردو نواح میں کھڑے تھے کہ اچانک ایک صاحبِ نور، صاحبِ حشمت اور بارعب گھڑ سوار نمودار ہوا جس نے آپؒکا ہاتھ پکڑ کر آپ کوپیچھے بٹھا لیا۔ آپ ؒ ڈرے، کانپے اور پوچھا کہ آپ کون ہیں؟ گھڑ سوار نے پہلے ’توجہ‘ کی اور بعدازاں فرمایا کہ میں علی ابنِ ابی طالبؓ ہوں۔ پھر آپؒ نے عرض کی کہ مجھے کہاں لے جارہے ہیں؟ فرمایا ’’حسب الارشاد حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے حضور پر نور میں لیے جاتا ہوں۔‘‘ اسی وقت لے جاکر مجلسِ محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) میں حاضر کر دیا۔ اس وقت حضرت صدیق اکبر، حضرت عمر بن خطاب اور حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہم بھی مجلسِ اہلِ بیتؓ میں حاضر تھے۔ حضرت سلطان باھوؒ کو دیکھتے ہی سب سے پہلے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے مجلسِ منور سے ا ٹھ کر آپؒ سے ملاقات کی اور ’توجہ‘ فرما کر مجلس سے رخصت ہوئے۔ بعدازاں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ اور حضرت عثمان ذوالنورین رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ باری باری اٹھے اور ’توجہ‘ اور ملاقات کے بعد مجلس شریف سے رخصت ہوگئے تو مجلس شریف میں صرف اہلِ بیت علیہم الصلوٰۃ والسلام رہ گئے۔ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں کہ مجھے امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے چہرہ مبارک سے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جناب سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میری بیعت حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے سپرد فرمائیں گے کیونکہ امیر المومنین اسد اللہ الغالب حضرت علی مرتضیٰ ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ میرے پہلے وسیلہ اور اکمل ہادی تھے، مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنے دونوں دست ِمبارک میری طرف بڑھا کر فرمایا ’’میرے ہاتھ پکڑو‘‘ اور مجھے دونوں ہاتھوں سے بیعت اور تلقین فرمایا۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے مجھے ایک مرتبہ کلمہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ﷲُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ ﷲِ تلقین فرمایا تو درجات اور مقامات کا کوئی حجاب نہ رہا۔ چنانچہ اوّل و آخر یکساں ہوگیا۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے تلقین سے مشرف ہوا تو خاتونِ جنت سیدّۃ النسا فاطمۃ زہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے مجھے فرمایا ’’تو میرا فرزند ہے۔‘‘ میں نے امامین پاک حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ اور حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے قدم مبارک چومے اور اپنے گلے میں ان کی غلامی کا حلقہ پہنا۔ (مناقبِ سلطانی)
اس فقیر کے خیال میں سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ کی اس عبارت سے یہ اعتراض کہ خلفائے راشدین کا ذکر مرتبہ سلطان الفقرمیں نہیں ہے،دور ہو جانا چاہیے اور یہ بات بھی سمجھ میں آجانی چاہیے کہ ان چار پیروں کی توجہ کے بغیر فقر کامل نہیں ہوتا۔
فقر اور اہلِ بیت رضی اللہ عنہم
حضرت مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
اللہ تعالیٰ سے وصل اوروصال کے دو طریقے اور راستے ہیں۔ ایک نبوت کا طریقہ اور راستہ ہے، اس طریق سے اصلی طور پر واصل اور موصل محض انبیا علیہم السلام ہیں اور یہ سلسلہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذاتِ گرامی پر ختم ہوا۔ دوسرا طریقہ ولایت کا ہے، اس طریق والے واسطے (وسیلہ) کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے واصل اور موصل ہوتے ہیں۔ یہ گروہ اقطاب، اوتاد، ابدال، نجبا اور عام اولیا پر مشتمل ہے۔ اس طریقے کا راستہ اور وسیلہ حضرت سیدّنا علی کرم اللہ وجہہ کی ذاتِ گرامی ہے اور یہ منصبِ عالی آپ رضی اللہ عنہٗ کی ذاتِ گرامی سے متعلق ہے۔ اس مقام میں خاتم الانبیا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا قدم مبارک حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے سر پر ہے اور حضرت فاطمتہ الزہرا رضی اللہ عنہا اور حسنین کریمین رضی اللہ عنہم اس مقام پر سیدّنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ساتھ شامل اور مشترک ہیں۔‘‘ (مکتوبات امام ربانی، مکتوب 123 بنام نور محمد تہاری)
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ اس حقیقت کو یوں بیان فرماتے ہیں:
حضرت علی کرم اللہ وجہہ شاہِ مرداں نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے فقر حاصل کیا ہے۔ (عین الفقر۔ محک الفقر کلاں)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فقر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو عطا فرمایا۔ (جامع الاسرار)
فقرا کے پیر حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہیں۔ (جامع الاسرار)
حدیث پاک اَنَا مَدِیْنَۃُ الْعِلْمِ وَ عَلِیٌّ بَابُھَا کا اہلِ علم اس طرح ترجمہ کرتے ہیں ’’میں علم کا شہر ہوں اور علیؓ اس کا دروازہ‘‘ لیکن حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ اس حدیث کو اس مفہوم میں بیان فرماتے ہیں ’’میں فقر کا شہر (مرکز) ہوں اور علیؓ اس کا دروازہ (باب)۔‘‘ اس لیے فقرا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو ’’بابِ فقر‘‘ کے لقب سے بھی یاد کرتے ہیں۔
سیدّہ کائنات حضرت فاطمتہ الزہرا رضی اللہ عنہا کے بارے میں تو پہلے ہی بیان ہو چکا ہے کہ وہ سلطان الفقر ہیں۔ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ اپنی تصنیف ’جامع الاسرار‘ میں فرماتے ہیں:
حضرت فاطمتہ الزہرا رضی اللہ عنہا فقر کی پلی ہوئی تھیں اور انہیں فقر حاصل تھا۔ جو شخص فقر تک پہنچتا ہے ان ہی کے وسیلہ سے پہنچتا ہے۔
حسنین کریمین رضی اللہ عنہم کے بارے میں حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
اَلْفَقْرُ فَخْرِیْ (فقر میرا فخر ہے) میں کمال امامین پاک حضرت امام حسن رضی اللہ عنہٗ اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ کو نصیب ہوا جو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اور خاتونِ جنت حضرت فاطمتہ الزہرا رضی اللہ عنہا کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں۔ (محک الفقر کلاں)
مندرجہ بالا عبارت سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ فقر کے مرتبۂ کمال فنا فی اللہ بقا باللہ کے مقام پر یہ چاروں ہستیاں یکتا اور متحد ہیں اور ان میں کوئی فرق نہیں ہے۔ جب تک ان چاروں ہستیوں کے مقام اور مرتبہ کے بارے میں طالبِ مولیٰ بھی یکتا نہیں ہو جاتا فقر کی خوشبو تک کو نہیں پا سکتا۔
فقر اور اصحابِ کبار رضی اللہ عنہم
کیا تما م اصحاب کبار رضی اللہ عنہم کو فقر کی نعمت ملی؟ حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
یاد رہے اصحابِ کبار رضی اللہ عنہم کے بعد (الفاظ ’’اصحابِ کبار کے بعد ‘‘پر غور فرمائیں اس کا مطلب ہے اصحابِ کبار رضی اللہ عنہم کو فقر کی نعمت ملی) فقر کی نعمت و دولت دو حضرات نے پائی، ایک غوث ا لاعظم محی الدین حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ اور دوسرے حضرت امام ابوحنیفہ کوفی رحمتہ اللہ علیہ جو ایک تارکِ دنیا صوفی تھے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے ستر سال تک نہ کوئی نماز قضا کی نہ روزہ ۔ اور ایسا ہی کمال (الفقر فخری میں) صالحہ و ساجدہ ولیہ حضرت بی بی رابعہ بصری رحمتہ اللہ علیہا کو نصیب ہوا۔ (محک الفقر کلاں)
مندرجہ بالا عبارت سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ اصحابِ کبار رضی اللہ عنہم نے مراتب بہ مراتب فقر کی نعمت پائی اور اس کے بعد غوث الاعظم حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہم، حضرت امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ اور حضرت رابعہ بصری رحمتہ اللہ علیہا کو یہ نعمت نصیب ہوئی ۔ اور یہ اعتراض کہ اصحاب کبارؓ اور ان کے بعد کسی ولی یا مجتہد کو فقر ملا یا نہیں، سلطان العارفین رحمتہ اللہ علیہ کی اس تحریر سے دور ہو جاتا ہے لیکن پھر بھی ایک اور تحریر حاضر ہے۔
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ نے اپنا عقیدہ کلیدالتوحید کلاں میں یوں بیان فرمایا ہے:
جان لو کہ ان چھ مراتب تک کوئی بھی نہیں پہنچ سکتا اور اگر کوئی پہنچنے کا دعویٰ کرے تو وہ جھوٹا، ساحر اور کافر ہوتا ہے جو استدراج کا شکار ہو کر مرتد ہو جاتا ہے۔ وہ خاص الخاص چھ مراتب یہ ہیں:
اوّل مرتبہ یہ کہ آیاتِ قرآن حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے علاوہ کسی پر نازل نہیں ہوئیں۔
دوم مرتبہ یہ کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد کسی پر وحی نازل نہیں ہوتی کیونکہ آپ خاتم النبیین ہیں۔
سوم مرتبہ یہ کہ مراتبِ معرفت (کی انتہا) تک سوائے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے کوئی نہیں پہنچا (اور نہ پہنچ سکتا ہے)۔
چہارم مرتبہ یہ کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے علاوہ مقامِ قابَ قوسین پر کوئی نہیں پہنچ سکتا اور نہ ہی کسی کو ظاہری جسم سے معراج ہو سکتی ہے اور نہ ہی کسی کو ظاہری آنکھوں سے دیدارِ الٰہی ہو سکتا ہے۔
پنجم مرتبہ یہ کہ کوئی شخص بھی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے تمام صحابہ، اصحابِ صفہ، اصحابِ بدر اور اصحابِ کبار رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مرتبہ تک نہیں پہنچ سکتا۔
ششم مرتبہ یہ کہ علمِ روایت میں چار مجتہد مذہب (حنفی، شافعی، مالکی اور حنبلی) ہیں، ان چاروں مجتہد امامین کے مرتبہ تک کوئی نہیں پہنچ سکتا اور یہ چاروں مذہب برحق ہیں۔ (کلید التوحید کلاں)
مندرجہ بالا چھ مراتب جو حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ نے بیان فرمائے ہیں ان پر کسی تبصرہ کی ضرورت نہیں ہے۔ ایک ایک مرتبہ صاف اور واضح طور پر بیان کیا گیا ہے اور خاص طور پر اصحابِ کبارؓ کے مرتبہ کی جو وضاحت آپ رحمتہ اللہ علیہ نے فرمائی ہے اس کے بعد تو کسی قسم کے اعتراض کی گنجائش ہی باقی نہیں رہتی۔
معترضین کے مرتبہ سلطان الفقر پر جو چھ اعتراضات درج کیے گئے تھے اُن اعتراضات کو سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ کی تصانیف سے ہی دور کر دیا گیا ہے۔
بناتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں حضرت فاطمتہ الزہرارضی اللہ عنہا کی فضیلت فقر کی وجہ سے ہے۔ آپ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے ان کی اصل وراثت فقرِمحمدیؐ حاصل کی اور اسی وراثت کی وجہ سے آپ رضی اللہ عنہا کی اولاد آلِ نبیؐ ہوئی۔ آپ رضی اللہ عنہا پہلی سلطان الفقر ہوئیں تاکہ دنیا کو آپ ؓ کی فضیلت معلوم ہو سکے ورنہ آپؓ نے تلقین و ارشاد کا فریضہ تو سر انجام نہیں دینا تھا۔ امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ تو ہیں ہی بابِ فقر کیونکہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ورثۂ فقر امت کو آپ کرم اللہ وجہہ کے وسیلہ سے منتقل ہوا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے ورثۂ فقر دوسرے سلطان الفقر حضرت خواجہ حسن بصری رضی اللہ عنہٗ کو منتقل ہونا اس حقانیت کو ثابت کرتا ہے کہ ورثۂ فقر موروثی نہیں ہے ورنہ امامین پاک حسنین کریمین رضی اللہ عنہم فقر کے کمال پر ہیں اور سلطان الفقر دوم حضرت خواجہ حسن بصری رضی اللہ عنہٗ اور سلطان الفقر پنجم سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ امامین پاک کی غلامی پر فخر محسوس کرتے ہیں۔
المختصر فقر کی یہ نعمتِ عظمیٰ معراج کی رات حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کو عطا ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے طفیل آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی امت میں سلطان الفقر کا مرتبہ عالی جناب خاتونِ جنت سیدۃ النسا حضرت فاطمۃ الزہرا ؓ کو عطا ہوا اور بابِ فقر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو خرقہ فقر پہنایا گیا اور آپ کرم اللہ وجہہ سے ہی فقر امت کو منتقل ہوا۔ ان کے بعد حسنین کریمین رضی اللہ عنہم اور صحابہ کرامؓ نے فقر پایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی امت میں سے چھ اور ایسی ہستیوں کا انتخاب کیا گیا جن کو بعض پر فضیلت عطا کی گئی اور ان کو فقر میں ایک خاص مرتبہ ’سلطان الفقر‘ کا تاج پہنایا گیا ۔ ان کی نشانی حضرت سخی سلطان باھوؒ نے یہ بیان فرمائی ہے:
ان کی نظر سراسر نورِوحدت اور کیمیا ئے عزت ہے۔ جس طالب پر ان کی نگاہ پڑ جاتی ہے وہ مشاہدئہ ذاتِ حق تعالیٰ ایسے کر نے لگتا ہے گویا اس کا سارا وجود مطلق نور بن گیا ہو۔ انہیں طالبوں کو ظاہری وردووظائف اور چلہ کشی کی مشقت میں ڈالنے کی حاجت نہیں ہے۔ (رسالہ روحی شریف)
یعنی یہ طالبانِ مولیٰ کو ورد وظائف، چلہ کشی اور مشقت میں نہیں ڈالتے بلکہ ان کی نظر ہی نور ہے، جس پر پڑ جاتی ہے وہ بھی نور بن جاتا ہے۔ اس فقیر کو یہ طویل بحث اس لیے کرنا پڑی کہ فقیر کو ان سوالات سے اکثر واسطہ پڑتا رہا ہے اور لوگوں کے ذہن میں یہ سوالات جنم لیتے رہتے ہیں خاص طور پر وہ جن کا تعلق طبقہ ظاہر سے ہے۔ امید ہے اس بحث سے بہت سے شکوک و شبہات رفع ہوگئے ہوں گے۔ لیکن ایک بات ذہن میں رہے کہ فقر کے مختارِ کل حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ہیں اور فقر ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اصل وراثت ہے اور اہلِ بیتؓ اس وراثت کے وارث اور اس کو منتقل کرنے والے ہیں۔
رسالہ روحی شریف میں حضرت سخی سلطان باھوؒ نے جن سات سلطان الفقراور سیدّ الکونین اَرواح کا ذکر فرمایا ہے اِن میں سے پانچ کے ناموں کا تو آپ رحمتہ اللہ علیہ نے انکشاف فرما دیا تھا جو دنیا میں جلوہ گر ہوکر اپنے اپنے زمانہ کے لوگوںکے لئے رحمت اور فیض کاموجب بنیں۔ ان پانچ ارواح کے حالاتِ زندگی اور مناقب پر بہت سی کتب اور رسائل تصنیف ہو چکے ہیں اور وہ کسی تعارف کی محتاج نہیں ہیں۔ لیکن مستقبل میں آنے والی دو ارواح کے ناموں کو آپ رحمتہ اللہ علیہ نے مخفی رکھا تھا۔ ان میں سے ایک روح اور ہستی دنیا میں ظاہر ہو چکی ہے جس کی غلامی اور زیارت کا شرف اس زمانہ کے لوگوں کو حاصل ہوا۔ ان کا نام سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ ہے جن کا یہ فقیر غلام اور خادم ہے۔ 14اگست 1947 (27رمضان المبارک 1366ھ) بروز جمعتہ المبارک کو آپ رحمتہ اللہ علیہ کی ولادت ہوئی اور26 دسمبر 2003ء (2ذیقعد1424ھ) بروز جمعتہ المبارک آپ رحمتہ اللہ علیہ نے وصال فرمایا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کے حالاتِ زندگی اور تعلیمات پر اس فقیر نے ایک کتاب ’’سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علیؒ ۔حیات و تعلیمات‘‘ تحریر کی ہے یا مشائخ سروری قادری کی سوانح حیات پر مشتمل کتاب ’’مجتبیٰ آخر زمانی‘‘ کے باب ششم کا مطالعہ فرمائیں۔
( ماخوذ از کتاب ’’شمس الفقرا‘ ‘ تصنیفِ لطیف سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الرحمن مدظلہ الاقدس)
❤❤❤❤
سبحان اللہ
بہت خوبصورت تحریر