silsala sarwari qadri

سلسلہ سروری قادری


سلسلہ سروری قادری

(Silsila  Sarwari  Qadri)

حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ کا سلسلہ سروری قادری ہے۔ شاید ہی آپؒ کی کوئی ایسی تصنیف ہو جس میں آپؒ نے اپنے قادری ہونے اور پیرانِ پیر دستگیر حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ اور ان کی فضیلت اور فیضِ روحانی کا ذکر نہ کیا ہو۔

سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ قادری سلسلہ کی دو شاخوں کا ذکر فرماتے ہیں، سروری قادری اور زاہدی قادری۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ سروری قادری ہیں اور آپ  رحمتہ اللہ علیہ سے ہی سلسلہ سروری قادری کو برصغیر میں عروج حاصل ہوا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ سروری قادری کو ہی کامل قادری یا اصل قادری سلسلہ تسلیم کرتے ہیں۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

طریقہ قادری بھی دو طرح کا ہے، ایک سروری قادری دوسرا زاہدی قادری۔ صاحبِ تصور سروری قادری (مرشد) اسمِ اللہ  ذات کے حاضرات سے طالبِ مولیٰ کو تعلیم و تلقین سے نوازتا ہے تو روزِ اوّل ہی اس کا مرتبہ اپنے مرتبہ کے برابر کر دیتا ہے جس سے طالب لایحتاج اور بے نیاز ہو جاتا ہے۔ اس کی نظر حق پر رہتی ہے اور اس کی نظر میں سونا اور مٹی برابر ہو جاتے ہیں۔ دوسرا طریقہ زاہدی قادری ہے جس میں طالب بارہ سال تک ایسی ریاضت کرتا ہے کہ اس کے پیٹ میں کھانا تک نہیں جاتا۔ بارہ سال کے بعد حضرت پیر دستگیر نظر فرماتے ہیں اور اسے سالک مجذوب یا مجذوب سالک کے مرتبہ پر پہنچا دیتے ہیں۔ سروری قادری محبوبیت کا مرتبہ ہے۔ (کلید التوحید کلاں)

زمان اور لامکان پر قدرت رکھنے والا طریقہ قادری ہے۔ سلسلہ قادری دو قسم کا ہے۔ ایک زاہدی قادری اور دوسرا سروری قادری۔ سروری قادری کیا ہے اور زاہدی قادری کسے کہتے ہیں؟ سروری قادری سلسلہ وہ ہے جس کے ذریعے یہ فقیر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری سے مشرف ہوا، انہوں نے اس فقیر کو اپنے دستِ اقدس پر بیعت فرمایا اور مسکرا کر فرمایا کہ خلقِ خدا کی رہنمائی میں ہمت کرو۔ تلقین کے بعد حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اس فقیر کو حضرت پیر دستگیر شاہ محی الدین عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ کے سپرد فرما دیا۔ حضرت پیر دستگیر شاہ محی الدین عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ نے بھی سرفراز فرما کر (مخلوقِ خدا کو) تلقین کرنے کا حکم دیا۔ اس کے بعد ان کی نگاہِ کرم سے میں نے جس طالبِ مولیٰ کو بھی ظاہر و باطن میں برزخِ اسمِ اللہ ذات اور اسمِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی راہ دکھائی اسے ذکر اور مشقت میں ڈالے بغیر مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں پہنچا دیا۔ پھر ان طالبانِ مولیٰ نے جدھر بھی دیکھا انہیں اسمِ اللہ ذات ہی نظر آیا اور ان کے سامنے کوئی حجاب اور پردہ باقی نہ رہا۔ سروری قادری راہِ فیض ہے اور کم حوصلہ نہیں ہے۔ بعض لوگوں (دیگر سلاسل کے ناقص مرشدوں) نے طالبانِ مولیٰ کو اسمِ اللہ کے اثرات کی تپش سے مار ڈالا، بعض اسمِ اللہ ذات کا بار برداشت نہ کر سکے اور عاجز ہو گئے اور بعض مردود اور مرتد ہو گئے۔ (عین الفقر)

سروری قادری کامل کی ابتدا کیا ہے۔ کامل قادری اپنی نظر یا تصور اسمِ اللہ ذات یا ذکر ِکلمہ طیب کی ضرب یا باطنی توجہ سے طالبِ مولیٰ کو معرفتِ الٰہی کے نور میں غرق کر دیتا ہے اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری میں پہنچا دیتا ہے۔ یہ کامل قادری کا روزِ اوّل کا سبق ہے۔ جو یہ سبق نہیں پڑھاتا اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تک نہیں پہنچاتا وہ کامل قادری نہیں۔ اس کی مستیٔ حال محض خام خیالی ہے کیونکہ قادری ہمیشہ نور، معرفتِ الٰہی اور وصال میں غرق ہوتا ہے۔ وصال بھی دو قسم کا ہوتا ہے، ایک وصال وہ جو تجلیٔ الہام کے باعث ہے۔ دوم اس تجلی میں مکمل غرق کا وصال۔ (کلید التوحیدکلاں)

یاد رہے کہ قادری طریقہ بھی دو قسم کا ہے، ایک قادری زاہدی طریقہ ہے جس میں طالب عوام کی نگاہ میں صاحبِ مجاہدہ و صاحبِ ریاضت ہوتا ہے جو ذکرِجہر سے دل پر ضربیں لگاتا ہے، غور و فکر سے نفس کا محاسبہ کرتا ہے، ورد و وظائف میں مشغول رہتا ہے، راتیں قیام میں گزارتا ہے اور دن کو روزہ رکھتا ہے لیکن باطن کے مشاہدہ سے بے خبر قال (گفتگو) کی وجہ سے صاحبِ حال بنا رہتا ہے۔ دوسرا سروری قادری طریقہ ہے جس میں طالب قرب و وصال اور مشاہدہِ دیدار سے مشرف ہو کر شوریدہ حال رہتا ہے اور ایک ہی نظر سے طالبِ اللہ کو معیتِ حق تعالیٰ میں پہنچا دیتا ہے اور وصالِ پروردگار سے مشرف کر کے حق الیقین کے مراتب پر پہنچا دیتا ہے۔ ایسا ہی سروری قادری فقیر قابلِ اعتبار ہے کہ وہ قاتل ِنفس ہوتا ہے اور کار زارِ حق میں پیش قدمی کرنے والا سالار ہوتا ہے۔ (محک الفقر کلاں) 

سلسلہ سروری قادری کو سروری قادری اس لیے کہا جاتا ہے کہ سروری کا مطلب ہے سرورِ کائنات حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دستِ مبارک پر بیعت ہونا اور قادری کا مطلب ہے سیّدنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبد القادر جیلانی ؓ کی اتباع کرنا یعنی اُن کے طریقہ پر چلنا۔ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

سروری قادری اُسے کہتے ہیں جسے خود حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام دستِ بیعت فرماتے ہیں۔ اس کے وجود سے بد خلقی کی خوبوُ ختم ہو جاتی ہے اور اُسے شرعِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی راہ پر گامزن ہونے کی توفیق نصیب ہوجاتی ہے۔ (محک الفقر کلاں)

ایک اس مرتبہ کے بھی سروری قادری ہوتے ہیں جنہیں خاتم النبیین رسولِ ربّ العالمین سرورِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اپنی مہربانی سے نواز کر باطن میں حضرت محی الدین شاہ عبدالقادر جیلانی قدس سرہُ العزیز کے سپرد کر دیں اور حضرت پیر دستگیر رضی اللہ عنہٗ بھی اُسے اس طرح نوازتے ہیں کہ اُسے خود سے جدا نہیں ہونے دیتے۔ (محک الفقر کلاں)

سروری قادری طریقہ میں رنجِ ریاضت، چلہ کشی، حبسِ دم، ابتدائی سلوک اور ذکر فکر کی الجھنیں ہرگز نہیں ہیں۔ یہ سلسلہ ظاہری درویشانہ لباس اور رنگ ڈھنگ سے پاک ہے اور ہر قسم کے مشائخانہ طور طریقوں مثلاً عصا، تسبیح، جبہ و دستار وغیرہ سے بیزار ہے۔ اس سلسلہ کی خصوصیت یہ ہے کہ مرشد پہلے ہی روز سلطان الاذکار ھوُ کا ذکر اور تصورِ اسم ذات اور مشقِ مرقومِ وجودیہ عطا کر کے طالب کو انتہا پر پہنچا دیتا ہے۔ جبکہ دوسرے سلاسل میں یہ سب کچھ نہیں ہے۔ اس لیے حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ سلسلہ سروری قادری کے طالب (مرید) کی ابتدا دوسرے سلاسل کی انتہا کے برابر ہوتی ہے۔ آپؒ فرماتے ہیں:

سروری قادری اُسے کہتے ہیں جو نر شیر پر سواری کرتا ہے اور غوث و قطب اُس کے زیر ِبار رہتے ہیں۔ سروری قادری طالبوں اور مریدوں کو اللہ تعالیٰ کے کرم سے پہلے ہی روزیہ مرتبہ حاصل ہوجاتا ہے کہ ماہ سے ماہی تک ہر چیز اُن کی نگاہ میں آجاتی ہے۔ سروری قادری کی اصل حقیقت یہ ہے کہ سروری قادری فقیر ہر طریقے کے طالب کو عامل کامل مکمل مرتبے پر پہنچا سکتا ہے کیونکہ دیگر ہر طریقے کے عامل کامل درویش سروری قادری فقیر کے نزدیک ناقص و ناتمام ہوتے ہیں کہ دوسرے ہر طریقے کی انتہا سروری قادری کی ابتدا کو بھی نہیں پہنچ سکتی خواہ کوئی عمر بھر محنت و ریاضت کے پتھر سے سر پھوڑتا پھرے۔ اس طریقہ کے عاشق و طالب دنیا سے تارک فارغ ہوتے ہیں کہ عارف واصل ہونا سروری قادری طریقے کا ابتدائی مرتبہ ہے۔ سروری قادری طریقے کے طالبوں اور مریدوں میں غوث و قطب او رابدال و اوتاد قیامت تک کم نہ ہوں گے کیونکہ اس طریقہ میں ابتدا و انتہا ایک ہی ہے یعنی تصورِ اسمِ اللہ ذات کی تاثیر طالب کو ذکر فکر میں مبتلا کیے بغیر تمام مراتب تک پہنچا دیتی ہے۔ اس طریقہ کو شریعت سے پائیداری اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیم و تلقین سے افتخار حاصل ہے۔ یاد رہے کہ حضرت پیر دستگیر مادر زاد ولی اللہ، فقیر فنا فی اللہ، وزیر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور عارف باللہ معشوقِ اللہ ہیں۔ انہیں بارگاہِ ربّ الارباب سے پیر دستگیر محی الدین، بقا باللہ قطب، فردانیت میں غوث اور وحدانیت میں غوث الاعظم کا خطاب اس لیے دیا گیا کہ آپؓ کے سروری قادری طالبوں اور مریدوں کو پہلے ہی روز اسمِ اعظم (اسمِ اللہ ذات) عطا کر دیا جاتا ہے اور انہیں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجلس کی حضوری بخش کر غالب الاولیا حبیب بنا دیا جاتا ہے۔ اس طریقہ سے فیض یاب ہونے والے باطن صفا اہلِ تصدیق طالب مرید ہر وقت حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجلس میں حاضر رہتے ہیں۔ (محک الفقر کلاں)۔

آپ رحمتہ اللہ علیہ تک سلسلہ سروری قادری silsala  sarwari  qadri اس طرح پہنچتا ہے:

1.    حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم

2.   حضرت علی کرم اللہ وجہہ

3.  حضرت امام خواجہ حسن بصری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ

4.  حضرت شیخ حبیب عجمی رحمتہ اللہ علیہ

5.  حضرت شیخ داؤ د طائی رحمتہ اللہ علیہ

6.  حضرت شیخ معروف کرخی رحمتہ اللہ علیہ

7.  حضرت شیخ سری سقطی رحمتہ اللہ علیہ

8.  حضرت شیخ جنید بغدادی رحمتہ اللہ علیہ

9.  حضرت شیخ جعفر ابوبکر شبلی رحمتہ اللہ علیہ

10.  حضرت شیخ عبد العز یز بن حرث بن اسد تمیمی رحمتہ اللہ علیہ

11.  حضرت شیخ ابو الفضل عبد الواحد تمیمی رحمتہ اللہ علیہ

12.  حضرت شیخ محمد یوسف ابو الفرح طر طوسی رحمتہ اللہ علیہ

13.  حضرت شیخ ابو الحسن علی بن محمد بن جعفر  القریشی ہنکاری رحمتہ اللہ علیہ

14.  حضرت شیخ ابو سعید مبارک مخزومی رحمتہ اللہ علیہ

15.  غوث الاعظم حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ

16.  حضرت شیخ تاج الدین ابو بکر سیّد عبد الرزاق جیلانی رحمتہ اللہ علیہ

17.  حضرت شیخ سیّد عبد الجبار جیلانی رحمتہ اللہ علیہ

18.  حضرت شیخ سیّد محمد صادق یحییٰ رحمتہ اللہ علیہ

19.  حضرت شیخ سیّد نجم الدین برہان پوری رحمتہ اللہ علیہ

20. حضرت شیخ سیّد عبد الفتاح رحمتہ اللہ علیہ

21.  حضرت شیخ سیّد عبد الستار رحمتہ اللہ علیہ

22.  حضرت شیخ سیّد عبد البقا رحمتہ اللہ علیہ

23.  حضرت شیخ سیّد عبد الجلیل رحمتہ اللہ علیہ

24.  حضرت شیخ سیّد عبد الرحمن جیلانی دہلوی رحمتہ اللہ علیہ

25.  سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ

26.  سلطان التارکین حضرت سخی سلطان سیّد محمد عبداللہ شاہ مدنی جیلانی رحمتہ اللہ علیہ

آپ رحمتہ اللہ علیہ 29 رمضان المبارک 1186 ہجری (24 دسمبر 1772ء) کو مدینہ میں پیدا ہوئے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ سلطان العارفین رحمتہ اللہ علیہ کے مرشد سیّد عبد الرحمن جیلانی دہلوی رحمتہ اللہ علیہ کے پڑپوتے تھے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حکم پر آپ رحمتہ اللہ علیہ نے ہندوستان کی طرف ہجرت کی اور سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ سے امانتِ الٰہیہ حاصل کی۔ 29 رمضان المبارک 1241 ہجری (6 مئی 1826) کو احمد پور شرقیہ پہنچے اور خلقِ خدا میں اسمِ اللہ ذات کا فیض تقسیم کیا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کی وفات 29 رمضان المبارک 1276ھ (20اپریل 1860ء) کو ہوئی۔ مزار مبارک احمد پور شرقیہ میں بہاولپور۔ پنجاب پاکستان ہے۔تفصیلی سوانحِ حیات کے مطالعہ کے لیے وزٹ کریں۔
www.sultanulfaqr.pk/sultan-ul-tarikeen-syed-mohammad-abdullah-shah-madni-jilani/ or
www.tehreekdawatefaqr.org/syed-mohammad-abdullah-shah

27.  سلطان الصابرین حضرت سخی سلطان پیر محمد عبدالغفور شاہ ہاشمی قریشی رحمتہ اللہ علیہ

ڈیرہ غازی خان میں 14 ذوالحجہ 1242 ہجری (9 جولائی 1827ء) کو ولادت ہوئی اور 10 صفر 1328 ہجری (21 فروری 1910ء) کو وفات ہوئی۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کا مزار مبارک مڈ شریف جھنگ پاکستان میں ہے۔تفصیلی سوانحِ حیات کے مطالعہ کے لیے وزٹ کریں۔
www.sultanulfaqr.pk/sultan-ul-sabireen-pir-mohammad-abdul-ghafoor-shah/ or
www.tehreekdawatefaqr.org/pir-abdul-ghafoor-shah

28. شہبازِ عارفاں حضرت سخی سلطان پیر سیدّ محمد بہادر علی شاہ کاظمی المشہدی رحمتہ اللہ علیہ

آپ رحمتہ اللہ علیہ 16 اگست 1801 (5 ربیع الثانی 1216ہجری) کو قصبہ حسووالی تحصیل شورکوٹ ضلع جھنگ میں پیدا ہوئے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کی وفات 27 فروری 1934ء (14 ذیقعد 1352ھ) کو ہوئی۔ مزار مبارک جھنگ پاکستان میں ہے۔تفصیلی سوانحِ حیات کے مطالعہ کے لیے وزٹ کریں۔
www.sultanulfaqr.pk/shahbaz-e-arifaan-pir-syed-mohammad-bahadur-ali-shah/ or
www.tehreekdawatefaqr.org/pir-syed-bahadur-ali-shah

29. سلطان الاولیا حضرت سخی سلطان محمد عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ

آپ رحمتہ اللہ علیہ کی ولادت باسعادت 12 مارچ 1911ء (12 ربیع الاوّل 1329ھ) کو گڑھ مہاراجہ ضلع جھنگ پاکستان میں ہوئی۔ وصال مبارک 12 اپریل 1981ء (7جمادی الثانی 1401ھ) کو ہوا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کا مزار مبارک حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ کے مزار مبارک سے تقریباً نصف کلو میٹر کے فاصلے پر جھنگ پاکستان میں ہے۔تفصیلی سوانحِ حیات کے مطالعہ کے لیے وزٹ کریں۔
www.sultanulfaqr.pk/sultan-ul-auliya-sultan-mohammad-abdul-aziz/ or    www.tehreekdawatefaqr.org/sultan-mohammad-abdul-aziz

30. سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ

آپ رحمتہ اللہ علیہ کی ولادت 14 اگست 1947ء (27 رمضان المبارک 1366ھ) کو گڑھ مہاراجہ ضلع جھنگ میں ہوئی۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ سلطان عبد العزیز رحمتہ اللہ علیہ کے صاحبزادے ہیں۔ وصال مبارک 26 دسمبر 2003ء (02 ذیقعد 1424ھ) کو ہوا۔ اپنے والد مرشد کے پہلو میں دفن ہوئے۔تفصیلی سوانحِ حیات کے مطالعہ کے لیے وزٹ کریں۔
www.sultanulfaqr.pk/sultan-ul-faqr-shasham-sultan-mohammad-asghar-ali/or
www.tehreekdawatefaqr.org/sultan-mohammad-asghar-ali

31. سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس

19 اگست 1959ء (14 صفر 1379ھ) کو تحصیل چشتیاں ضلع بہاولنگر پاکستان میں پیدا ہوئے۔ آپ مدظلہ الاقدس موجودہ دور میں سلسلہ سروری قادری کی مسندِ تلقین و ارشاد پر فائز مرشد کامل اکمل جامع نور الہدیٰ ہیں۔
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن کی مکمل سوانح حیات اور جدوجہد کے مطالعہ کے لئے وزٹ کریں. https://www.sultan-ul-ashiqeen.pk

Click to rate this post!
[Total: 1 Average: 5]

8 تبصرے “سلسلہ سروری قادری

اپنا تبصرہ بھیجیں