عرفانِ نفس
جب سے انسان نے اس سیارہ جسے زمین کہتے ہیں، پر قدم رکھا ہے اس کے ذہن میں ہمیشہ ایسے سوالات جنم لیتے رہتے ہیں:
میں کون ہوں؟
میری ابتدا کیا ہے؟
میری انتہا کیا ہے؟
میری حقیقت کیا ہے؟
میری پہچان کیا ہے؟
اگر مجھے تخلیق کرنے والا خالق کوئی ہے تو وہ کون ہے؟ اس کی پہچان کیا ہے؟
میرا مقصدِ حیات کیا ہے؟
ان جوابات کی تلاش کے لیے انسان نے جب بھی کوشش کی تو اللہ تعالیٰ نے اس کی راہنمائی کے لیے ہر دور میں اور اس زمین کے ہر خطے میں اپنے نبی اور رسول بھیجے جو انسان کو ان سوالات کے جوابات سے مطلع فرماتے رہے۔حتیٰ کہ وہ زمانہ آپہنچا جب روئے زمین کے انسان ایک دوسرے کے اتنے قریب آگئے کہ دنیا کے ایک سرے پر بیٹھا ہواا نسان دنیا کے دوسرے سرے پر بیٹھے ہوئے انسان سے باخبر رہنے لگا۔ ایسے وقت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب، باعثِ تخلیقِ کائنات خاتم النبیین محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو مبعوث فرما کر بنی نوع انسان پر اپنی راہنمائی کی حجت تمام کردی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پوری نسلِ انسانی کے لیے تا قیامِ قیامت ہادی ہیں۔ انسانوں کی ہدایت کے لیے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وسیلے سے قرآنِ مجید کی صورت میں مکمل ضابطۂ حیات عطا ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بارے میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَ مَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی (سورۃ النجم۔3)
ترجمہ: آپ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) اپنی خواہش سے بات نہیں کرتے۔
یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زبانِ مبارک سے نکلا ہوا ہر لفظ وحی الٰہی کی ہی ایک صورت ہے لہٰذا قرآنِ مجید کے ساتھ ساتھ احادیثِ قدسی اور احادیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صورت میں یہ ضابطہ ٔ حیات قیامت تک کے لیے محفوظ کر لیا گیا۔ جس خوش قسمت نے اس ضابطۂ حیات سے رجوع کیا اُسے راہنمائی ملی اور اس نے اپنا مقصدِ حیات حاصل کر لیا۔
اللہ تعالیٰ نے اس حدیثِ قدسی میں انسان کی تخلیق کا مقصد بیان فرمایا ہے:
کُنْتُ کَنْزًا مَخْفِیًا فَاَحْبَبْتُ اَنْ اُعْرَفَ فَخَلَقْتُ الْخَلْقَ
ترجمہ: میں ایک پوشیدہ خزانہ تھا میں نے چاہا کہ پہچانا جاؤں اس لیے میں نے مخلوق کو پیدا کیا۔
اس حدیثِ قدسی سے واضح ہو گیا کہ انسان کی تخلیق کا مقصد اللہ تعالیٰ کی پہچان اور معرفت ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ کی پہچان کیسے حاصل ہو گی۔تو اللہ کی پہچان کا طریقہ اس حدیث شریف میں بیان کیا گیا ہے:
مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ
ترجمہ: جس نے اپنے نفس کو (یعنی خود کو) پہچان لیا بے شک اس نے اپنے ربّ کو پہچان لیا۔
اسکی شرح اس طرح سے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام ارواح کو عالمِ لاھوت میں روحِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے پیدا فرمایا۔ اس مقام پر روح کو ’’روحِ قدسی‘‘ کا نام دیا جاتا ہے اور یہی روح کی وہ حالت ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
اَلْاِنْسَانُ سِرِّیْ وَ اَنَا سِرُّہٗ
ترجمہ: انسان میرا راز ہے اور میں انسان کا راز ہوں۔
اس مقام پر ارواح اللہ تعالیٰ کے دیدار میں محوہیں اور اسی عالم میں انسانی ارواح سے ’وعدۂ بلیٰ‘ لیا گیا۔ سورۃ الاعراف میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ (کیا میں تمہارا ربّ نہیں ہوں؟)
تمام ارواح نے جواب دیا :
قَالُوْا بَلٰی (ہاں تو ہی ہمارا ربّ ہے۔)(سورۃ الاعراف۔172)
علامہ اقبالؒ اسی وعدے کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
اَلَسْتُ از خلوتِ نازے کہ برخاست
بَلٰی از پردۂ سازے کہ برخاست
(زبورِ عجم)
ترجمہ: اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ کی آواز کس کے ناز کی خلوت سے بلند ہوئی اور ’’ بلٰی ‘‘کا نغمہ کس کے ساز کے سُر سے بلند ہوا؟
عالمِ لاھوت وہ عالم ہے جہاں پر انسان (انسانی روح) کے سوا تمام مخلوق کا داخلہ ممنوع ہے۔ اسی عالم کی سرحد پر حضرت جبرائیل علیہ السلام نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے معراج کی رات فرمایا تھا کہ اگر میں اس مقام سے ذرا سا بھی آگے بڑھوں گا تو جل جائوں گا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے روح کو عالمِ جبروت میں اتارا اور اسے جبروتی لباس پہنایا کیونکہ روح جس جہان میں بھیجی جائے گی اُسے اس جہان کے لباس کی ضرورت ہوگی۔ یہاں پر روح کا نام روحِ سلطانی یا نورانی ہوا۔ پھر اُسے عالمِ ملکوت میں اتارا گیا اور ملکوتی لباس پہنایا گیا۔ یہاں پر روح کا نام روحِ سیرانی یا روحانی ہوا۔ پھر اسے عالمِ ناسوت میں اتارا گیا اور بشری جسم میں داخل کر کے لباسِ بشر پہنایا گیا۔ یہاں پر روح کا نام روحِ جسمانی یا حیوانی ہوا۔ اس لیے فرمایا ’’روح امر ِ ربیّ ہے ‘‘اور اسی لیے کہا گیا ہے ’’ہر بچہ فطرتِ سلیمہ پر پیدا ہوتا ہے۔‘‘ یعنی اس کی روح پاکیزہ اور نور سے منور ہوتی ہے کیونکہ وہ لذّاتِ دنیا اور آلائشاتِ دنیا کی طرف متوجہ نہیں ہوئی ہوتی۔ اب انسانی عروج یہ ہے کہ وہ عالمِ ناسوت سے روحانی طور پر ترقی کرتا ہوا عالمِ لاھوت میں قدسی صورت میں ظاہر ہو جائے۔ اسی مقام پر پہنچ کر انسان کو عرفانِ نفس حاصل ہو جاتا ہے اور یہی عروج انسان کا مقصدِ حیات ہے۔روحِ قدسی کو مختلف ناموں سے موسوم کیا گیا ہے۔
بعض احادیث میں روح کو قلب، دل یا من کا نام دیا گیا ہے۔ صوفیاکرام نے بھی انسان کے اس روحانی وجود کو باطن، اندر کا انسان، روحانی انسان، انسان کا باطنی وجود، قلب، دل یا من کا نام دیا ہے۔
اصطلاحِ تصوف میں دل، قلب یا من سے مراد گوشت کا وہ لوتھڑا نہیں ہے جو سینے کے اندر بائیں جانب دھڑک رہا ہے۔ گوشت کا یہ لوتھڑا تو جانوروں اور مُردوں کے سینے میں بھی موجود ہوتا ہے اور ظاہری آنکھ سے اسے دیکھا بھی جاسکتا ہے۔ جس چیز کو ظاہری آنکھ دیکھ سکے اور جس کا تعلق ظاہری دنیا سے ہو اور جسے فنا بھی ہونا ہو اُسے عالم ِباطن کی کیا خبر ہوسکتی ہے؟ روح کو یہ نام اصطلاحی طور پر دیا گیا ہے۔
اقبالؒ نے اسے ’خودی‘ کا نام دیا ہے اور عرفانِ نفس کو آپؒ ’خودی کی پہچان‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ اقبالؒ کے زیادہ تر مفسروں نے ’خودی‘ کو ’روح‘ سمجھنے کی بجائے ’اَنا‘ سمجھ کر بہت بڑی زیادتی اور غلطی کی ہے۔ انہیں شاید یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ ’اَنا‘ (تکبر، عُجب) سے انسان خدا تعالیٰ سے دور ہوتا ہے اور ’رُوح‘ سے اللہ کے قریب ہوتا ہے۔ ویسے علامہ اقبالؒ نے من، دِل اور روح کی اصطلاحیں بھی استعمال کی ہیں۔
عام انسان اسے ضمیر کے نام سے بھی موسوم کرتے ہیں۔ جب انسان کوئی گناہ یا غلط کام کرتا ہے تو روح ہی اسے ملامت کرتی ہے کیونکہ گناہ اس کی فطرت میں نہیں۔ انسان یہ کہتا ہے کہ میرا ضمیر مجھے ملامت کر رہا ہے۔
روح کی پہچان کو ہی اصل میں عرفانِ نفس کہا جاتاہے اور یہی دین ہے۔ دین کے معنی ہیں ’’جوہر ِانسان (روح) کی شناخت اور اس کی تکمیل‘‘ یعنی مرتبہ ٔ انسان کی پہچان اور اس کے حصول کا نام دین ہے۔ دوسرے الفاظ میں خود شناسی وخودبینی وخود بانی کا نام دین ہے اور خود شناسی یہ ہے کہ انسان کی تخلیق دو چیزوں سے عمل میں لائی گئی ہے، ایک چیز تو ظاہری وجود ہے جسے جسم یا تن بھی کہتے ہیں، جسے آنکھ سے دیکھا اور ہاتھوں سے چھوا جاسکتا ہے۔ دوسری چیز باطن ہے جسے روح، قلب یا دل بھی کہتے ہیں،جس کا ذکر پہلے ہوا ہے۔ اسے نہ تو ظاہری آنکھوں سے دیکھا جاسکتا ہے اور نہ ہی ظاہری ہاتھوں سے چھوا جاسکتا ہے۔ اسے صرف باطن کی آنکھ سے ہی دیکھا بھالا جاسکتا ہے کیونکہ اس کا تعلق اس ظاہری جہان سے ہرگز نہیں بلکہ اس کا تعلق عالم ِغیب سے ہے۔ یہی انسان کا اصل وجود ہے۔ اگر اس سے ظاہری جسم چھن بھی جائے تو اس باطنی وجود کو قائم رہنا ہے کہ اسے فنا نہیں ہے۔ معرفت ِ الٰہی اور جمالِ خداوندی کا مشاہدہ اس باطنی وجود کی خاص صفت ہے۔ عبادت کا حکم اسی کو ہے، ثواب وعذاب اسی کے لئے ہے، سعادت وشقاوت اسی کا مقدر ہے اور اس کی حقیقت سے آگاہ ہونا ہی معرفت ِ الٰہی کی چابی ہے اور یہی دین کی حقیقت ہے۔
موجودہ دور میں مشکل یہ آن پڑی ہے کہ جب علم ِباطن کا کوئی مسئلہ سامنے آتا ہے تو ان قرآنی آیات کو جن میں علمِ باطن کے متعلق واضح اور روشن ہدایات موجود ہیں، ان سے استفادہ کرنے کی بجائے کچھ لوگ انہیں متشابہات کہہ کر آگے گزر جاتے ہیں۔ آج کل کے دور میں یہی ہماری گمراہی کی بڑی وجہ ہے کہ ہم نے اپنے باطن کو فراموش کردیا ہے اور صرف ظاہر کی طرف متوجہ ہوگئے ہیں۔ آج کا انسان آفاق میں گم ہے، اگر وہ اپنی ہستی کو پہچان لے تو آفاق اس کو اپنے اندر دکھائی دیں۔
قرآنِ مجید میں بھی باربار انسان کے باطن کی طرف توجہ دلائی گئی ہے:
وَ فِیْ ٓاَنْفُسِکُمْ ط اَفَلاَ تُبْصِرُوْنَ۔ (سورۃ اَلذّٰریٰت ۔21)
ترجمہ: اور میں تمہارے اندر موجود ہوں کیا تم غور سے نہیں دیکھتے۔
وَ نَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ ۔ (سورۃ ق۔16)
ترجمہ: اور ہم تو انسان کی شہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں۔
کَتَبَ فِیْ قُلُوْبِھِمُ الْاِیْمَانَ (سورۃ المجادلہ۔22)
ترجمہ: ان کے قلوب (باطن) میں ایمان لکھا۔
اَفَرَئَیْتَ مَنِ تَّخَذَ اِلٰھَہٗ ھَوَاہُ (سورۃ الجاثیہ۔23)
ترجمہ: (اے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کیا آپ نے ایسے شخص کو دیکھا جس نے اپنی نفسانی خواہشات کو اپنا ا لٰہ (معبود) بنا لیا ہے ۔
اَوَلَمْ یَتَفَکَّرُوْا فِیْ ٓ اَنْفُسِھِمْ (سورۃ الروم۔8)
ترجمہ : کیا وہ اپنے اندر فکر نہیںکرتے ۔
حدیثِ قدسی میں اللہ تعالیٰ نے باطن کی طرف متوجہ کیا ہے:
لَا یَسَعُنِیْ اَرْضِیْ وَ لَا سَمَآئِیْ وَلٰکِنْ یَّسَعُنِیْ فِیْ قَلْبِ عَبْدِ الْمُؤْمِنِ
ترجمہ: نہ میں زمین میں سماتا ہوں اور نہ آسمانوں میں لیکن بندۂ مومن کے قلب میں سماجاتا ہوں۔
احادیثِ نبویؐ میں بھی باطن کی طرف اشارہ موجود ہے:
اِنَّ اللّٰہَ لَا یَنْظُرُ اِلٰی صُوَرِکُمْ وَ لَا یَنْظُرُ اِلٰی اَعْمَالِکُمْ وَ لٰکِنْ یَنْظُرُ اِلٰی قُلُوْبِکُمْ وَ نِیَّاتِکُمْ (مسلم)
ترجمہ:بے شک اﷲ تعالیٰ نہ تمہاری صورتوں کو دیکھتا ہے اورنہ تمہارے اعمال کو بلکہ وہ تمہارے قلوب اور نیتوں کو دیکھتا ہے۔
اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ (بخاری6953)
ترجمہ: اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔
قَلْبُ الْمُؤْمِنِ عَرْشُ اللہِ تَعَالٰی (الحدیث)
ترجمہ: مومن کا قلب اللہ تعالیٰ کا عرش ہے۔
ایسی بے شمار آیات و احادیث موجود ہیں جن میں قلب و باطن کی طرف بندے کی توجہ دلائی گئی ہے۔ اسی قلب وباطن میں ایمان ٹھہرایا گیا ہے، یہی تخیل و تصور کا مرکز ہے اور شیطان لعین بھی اسی باطن میں وسوسے ڈالتا ہے۔
الَّذِیْ یُوَسْوِسُ فِیْ صُدُوْرِ النَّاسِ (سورۃ الناس۔5)
ترجمہ: وہ لوگوں کے سینوں میں وسوسے ڈالتا ہے۔
دنیا میں جہاں کہیں بھی کوئی شناسائے حقیقت، رازِ پنہاں سے واقف ہستی یا کوئی مفکر پیدا ہوا ہے اس نے اس حقیقت کا پردہ ضرور فاش کیا ہے کہ عرفانِ نفس سے ہی اصل آگہی حاصل ہوتی ہے۔ ساتھ ساتھ اس قرآنی حقیقت سے بھی پردہ اٹھایا ہے کہ نہ صرف اللہ اور اس کا تخلیق کردہ یہ عالم بلکہ پوری کائنات (یعنی تمام عالمین) انسانی قلب میں لطیف صورت میں موجود ہے۔ یہ محض کوئی فلسفیانہ اصول نہیں جو ذہنی لطف یا دماغی کسرت کی تشفی کے لیے گھڑا گیا ہو، یہ زندگی کی وہ حقیقت ہے جو قرآن و حدیث، انبیا کرام اور فقرائے کاملین کی تعلیمات اور تجربے کی مضبوط بنیاد پر کھڑی ہے۔
مولانا رومؒ اس حقیقت سے پردہ اٹھاتے ہوئے انسان سے فرماتے ہیں:
بس بصورت عَالَمِ صُغریٰ توئی
پس بمعنی عَالَمِ کُبْریٰ توئی
ترجمہ: شکل سے تو جہانِ صغیر ہے مگر حقیقت میں تو جہانِ کبیر ہے۔
آدمی را ہست حِسِ تن سِقیم
لیک در باطن یکے خلق عظیم
ترجمہ: انسان جسمانی حواس کے نظریہ سے حقیر و ہیچ ہے مگر باطن میں’’ عالمِ عظیم‘‘ ہے۔
خواجہ حافظ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
یار با ماست روز و شب حافظ
ہمچوں جانے کہ ہست در رگ و پے
ترجمہ:اے حافظ! یار دن رات ہمارے ساتھ ہے جیسے زندگی ہماری رگ وپے میں ہے۔
حضرت بو علی شاہ قلندر رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
یار در تو پس چرائی بے خبر
ترجمہ: یار تیرے اندر ہے، تو کیوں بے خبر ہے۔
حضرت معین الدین چشتی اجمیریؒ بھی جستجو ئے باطنی کی اہمیت نمایاں کرتے ہوئے انسان کو مخاطب کرتے ہیں:
آبِ حیات است اندر ظلمتِ ہستی تو
ماہی شو، خویش را در آبِ حیات فگن
ترجمہ: تیری ہستی کی تاریکی میں آبِ حیات موجود ہے۔ تو مچھلی بن جا اور خود کو اس آبِ حیات میں ڈال دے۔
ایک اور جگہ آپؒ نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
بامعین گفت ہر ُسو تا بہ کے خواہی دَوِید
ہم زَ خود جو ہر چہ خواہی تا بدانی کیستی
ترجمہ: اس نے معین الدین سے کہا تو کب تک ہر طرف دوڑتا پھرے گا؟ تجھے جو بھی چاہیے اسے اپنے اندر تلاش کر تاکہ تجھے پتہ چلے کہ تو کون ہے۔
حضرت بلھے شاہؒ کے مطابق جس نے رازِ حق پایا ہے، راہِ باطن تلاش کرکے ہی پایا ہے۔ جس نے یہ راز پالیا وہ سکونِ حقیقی کا حقدار بن گیا اور خوشی وغم، گناہ وثواب، حیات وموت اور ہر طرح کے امتیاز سے آزاد ہوگیا۔
جس پایا بھیت قلندر دا
راہ کھوجیا اپنے اندر دا
اوہ واسی ہے سکھ مندر دا
جتھے کوئی نہ چڑھدی لہندی اے
منہ آئی بات نہ رہندی اے
ایہہ تلکن بازی ویہڑا اے
تھم تھم کے ٹرو اندھیرا اے
وڑ اندر ویکھو کیہڑا اے
کیوں خلقت باہر ڈھونڈیندی اے
منہ آئی بات نہ رہندی اے
امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ کی شرح میں فرماتے ہیں:
اے انسان! تجھ سے قریب ترین اگر کوئی چیز ہے تو تیری اپنی ہی ذات ہے اس لیے اگر تو اپنے آپ کو نہیں پہچانتا تو کسی دوسرے کوکیوں کر پہچان سکے گا؟ فقط یہ جان لینا ’’یہ میرے ہاتھ ہیں، یہ میرے پاؤں ہیں، یہ میری ہڈیاں ہیں اور یہ میرا جسم ہے‘‘ اپنی ذات کی شناخت تو نہیں ہے۔ اتنی شناخت تو اپنے لیے دیگر جانور بھی رکھتے ہیں۔ یا فقط یہ جان لینا کہ بھوک لگے تو کچھ کھالینا چاہیے، غصہ آجائے تو جھگڑا کر لینا چاہیے، شہوت کا غلبہ ہوجائے تو جماع کر لینا چاہیے، یہ تمام باتیں تو جانوروں میں بھی تیرے برابر ہیں پھر تو ان سے اشرف و افضل کیونکر ہوا؟ تیری اپنی ذات کی معرفت و پہچان کا تقاضا یہ ہے کہ تو جانے کہ تو خود کیا ہے؟ کہاں سے آیا ہے اور کہاں جائے گا؟ اور جو تو آیا ہے تو کس کام کے لئے آیا ہے؟ تجھے پیدا کیا گیا ہے تو کس غرض کے لئے پیدا کیا گیا؟ تیری نیک بختی و سعادت کیا ہے؟ اور کس چیز میںہے؟ تیری بدبختی وشقاوت کیا ہے اور کس چیز میں ہے؟ اور یہ صفات جو تیرے اندر جمع کر دی گئی ہیں جن میں سے بعض صفات حیوانی ہیں، بعض وحشی درندوں کی، بعض شیطانی، بعض جناتی اوربعض ملکوتی ہیں، تو ذرا غور تو کر کہ تو ان میں سے کون سی صفات کا حامل ہے؟ تو ان میں سے کون ہے؟ تیری حقیقت ان میں سے کس کے قریب تر ہے؟ اور وہ کون کون سی صفات ہیں جن کی حیثیت تیرے باطن میں غریب واجنبی اور عارضی ہے؟ جب تک تو ان حقائق کو نہیں پہچانے گا اپنی ذات کی شناخت سے محروم رہے گااور اپنی نیک بختی وسعادت کا طلب گار نہیں بنے گا کیونکہ ان میں سے ہر ایک کی غذا علیحدہ علیحدہ ہے اورسعادت بھی الگ الگ ہے۔ چوپایوں کی غذا اور سعادت یہ ہے کہ کھائیں، پئیں، سوئیں اور مجامعت میں مشغول رہیں۔ اگرتو بھی یہی کچھ ہے تودن رات اسی کوشش میں لگارہ کہ تیرا پیٹ بھرتا رہے اور تیری شہوت کی تسکین ہوتی رہے۔ درندوں کی غذا اور سعادت لڑنے بھڑنے، مرنے مارنے اور غیظ وغضب میں ہے، شیطانوں کی غذا اور سعادت شر انگیزی اور مکروحیلہ سازی میں ہے۔ اگر تُو ان میں سے ہے تو ان ہی جیسے مشاغل اختیار کرلے تاکہ تُو اپنی مطلوبہ راحت ونیک بختی حاصل کرلے۔ فرشتوں کی غذا اور سعادت ذکر وتسبیح وطواف میں ہے جب کہ انسان کی غذا اور سعادت قربِ الٰہی میں اﷲ تعالیٰ کے انوار ِجمال کا مشاہدہ ہے۔ اگر تو انسان ہے تو کوشش کر کہ تو ذاتِ باری تعالیٰ کو پہچان سکے، اس کے انوار و جمال کا مشاہدہ کر سکے اور اپنے آپ کو غصہ او ر شہوت سے رہائی دلاسکے اور تو طلب کرے تو اس ذاتِ یکتا کو کرے تاکہ تجھے معلوم ہوجائے کہ تیرے اندر ان حیوانی وبہیمی صفات کا پیدا کرنے والا کون ہے؟ اور تجھ پر یہ حقیقت بھی منکشف ہوجائے کہ پیدا کرنے والے نے ان صفات کو تیرے اندر جو پیدا کیا ہے تو کیا اس لیے کہ وہ تجھے اپنا اسیر بنالیں اور تجھ پر غلبہ حاصل کرکے خود فاتح بن جائیں؟ یا اس لیے کہ تو ان کو اپنا اسیرو مسخر بنالے اور خود ان پر غالب آجائے او راپنے ان اسیروں اور مفتوحین میں سے کسی کو اپنے سفر کا گھوڑا بنالے اور کسی کو اپنا اسلحہ بنالے تاکہ یہ چند دن جو تجھے اس منزل گاہِ فانی میں گزارنا ہیں، ان میں اپنے ان غلاموں سے کام لے کر اپنی سعادت کا بیج حاصل کرسکے اور جب سعادت کا بیج تیرے ہاتھ آجائے تو تُو ان کو اپنے پاؤں تلے روندتا ہوا اپنی اس قرار گاہِ سعادت میں داخل ہوسکے جسے خواص کی زبان میں ’’حضورِ حق ٗ‘ کہا جاتا ہے۔ یہ تمام باتیں تیرے جاننے کی ہیں۔ جس نے ان کو نہ جانا وہ راہ ِدین سے دور رہا اور لامحالہ دین کی حقیقت سے حجاب میں رہا۔ (کیمیائے سعادت)
شیخِ اکبر محی الدین ابنِ عربی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
اے طالب! توُ پہچان اپنی ذات کو۔ کون ہے تو اور کیا ہے حقیقت تیری اور کیا ہے تیری نسبت حق تعالیٰ کی طرف اورکس وجہ سے تو حق ہے اورکس وجہ سے تو عالم (جہان) ہے۔ (شرح فصوص الحکم والایقان)
خودی کی پہچان سے محروم انسان کو اقبالؒ مردہ تصور کرتے ہیں۔
ترا تَن روح سے نا آشنا ہے
عجب کیا! آہ تیری نارسا ہے
تنِ بے روح سے بیزار ہے حق
خدائے زندہ، زندوں کا خدا ہے
(بالِ جبریل)
سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ عرفانِ نفس کے بارے میں فرماتے ہیں:
اے انسان! کیا تو نے اپنے اندر اس حقیقت کو تلاش کیا ہے کہ اصل میں تیری حقیقت کیا ہے؟ تو کہاں سے آیا ہے؟ تیرا اس دنیا میں آنے کا مقصد کیا ہے؟ اور تو نے واپس لوٹ کر کہاں جانا ہے؟
اپنے اندر اپنی حقیقت تلاش کر۔تیری حقیقت تو وہ ذات ہے جو تیری شہ رگ سے بھی قریب ہے۔تیری اپنی ہی ذات کی تلاش میں تجھے وہ ذات مل جائے گی –
اگر تو باطن کا بند قفل کھولنا چاہتا ہے تو اس کی کلید کسی مردِ کامل (مرشد کامل اکمل) سے حاصل کر۔باطن کے قفل کو کھولنے والی چابی اسمِ اللہ ذات ہے۔
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ
تمام عارفین اور فقرا کی طرح حضرت سخی سلطان باھوؒ بھی انسان کو اپنے من میں جھانکنے اور اپنی ذات پر غور کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ آپؒ چونکہ صوفیا کرام میں عظیم مرتبہ کے حامل اور سلطان الفقر کے مرتبہ پر فائز ہیں اس لئے آپؒ کا انداز بھی سب سے منفرد اور جداگانہ ہے۔
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ کی تمام تر تعلیمات خواہ نثر کی شکل میں ہوں یا شاعری کی شکل میں، قرآن وحدیث کی خوبصورت شرح ہیں۔ آپؒ اللہ تعالیٰ کے فرمان ’’اور ہم تو انسان کی شہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں‘‘ (سورۃ ق۔16) کا حوالہ دے کر فرماتے ہیں کہ اس ہستی کی تلاش کے لئے پہلے اپنے اندر رسائی ضروری ہے۔ باطن میں اﷲ پاک کی موجودگی پرزور دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس کے لئے لفظ ’قریب‘ کا استعمال بھی موزوں نہیں ہے کیونکہ یہ لفظ بھی علیحدگی اور دوئی کا مظہر ہے بلکہ وہی تو ہماری ہستی ہماری حقیقت ہے۔ آپؒ فرماتے ہیں:
قربِ حق نزدیک من حبل الورید
تو جمالش را نہ بینی بے نظیر
ترجمہ: ﷲ پاک کی ذات شہ رگ سے بھی قریب ہے مگر تو اندھا ہے کہ اس کے جمال کا دیدار نہیں کر سکتا۔ (دیوانِ باھوؒ)
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہمَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ کی شرح میں فرماتے ہیں:
جان لے کہ نفسِ امارہ کی قوت وغذا گناہ و معصیت ہے بلکہ یوں کہیے کہ نفسِ امارہ کا تو پیشہ ہی گناہ و معصیت ہے۔ اگر آدمی رات دِن نماز و روزہ جیسی طاعت و بندگی میں مشغول رہے اور ہمیشہ قائم اللّیل و صائم الدہر رہے تو اِس کے باوجود بھی نفسِ امارہ گناہ سے باز نہیں آتا کہ اُس کی تو خصلت ہی گمراہی ہے۔ آدمی چاہے رات دِن مسائلِ فقہ کے مطالعہ میں مشغول رہے یا ریاضتِ تقویٰ و تلاوتِ قرآن اور نص و حدیث کے مطالعہ میں مصروف رہے، نفسِ امارہ گناہوں سے باز نہیں آتا کہ اُس کا یارانہ شیاطین سے ہے۔ آدمی چاہے خانہ کعبہ کا طواف و حج کرتا رہے یا میدانِ جنگ میں جہاد و قتال کرتا رہے یا ذکر، فکر، مراقبہ، محاسبہ، مکاشفہ، کشف القلوب اور کشف القبور کے مراتب حاصل کرکے غوث و قطب بن جائے پھر بھی نفس ِ امارہ گناہوں سے باز نہیں آتا بلکہ ہر وقت گناہوں کی طرف مائل رہتا ہے کہ اُس کی نظر ہمیشہ مردار گناہ پر لگی رہتی ہے لیکن جب تصورِ اسمِ اللہ ذات سے اُس کے دِل میں قرب و وصالِ الٰہی کی تجلیات کا شعلہ بھڑکتا ہے تو وہ وحدانیت نوُرِ حضور کے دریا میں غرق ہو کر عارف باللہ فنا فی اللہ کے انتہائی مقام پر پہنچ جاتا ہے۔ اِس مقام پر نفسِ امارہ عاجز ہو کر گناہوں سے رک جاتا ہے اور اُسے قدرتِ الٰہی کی طرف سے بے کام و بے زبان الہامات کے ذریعے حکم ہوتا ہے کہ اے نفس ِ امارہ! حیا کر اور باادب ہو جا۔ قدرتِ الٰہی کے اِن الہامات کو سن کر نفسِ امارہ تائب ہو جاتا ہے اور مسلمان ہو کر صحیح اقرار و قلبی تصدیق کے ساتھ کلمہ طیب ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ ﷲ‘‘ پڑھ لیتا ہے اور گناہوں سے توبہ کرکے نفسِ مطمٔنہ بن جاتا ہے۔ پھر وہ طلبِ راستی میں دینِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم قبول کرکے منتہی ولی اللہ بن جاتا ہے۔ معرفتِ الٰہی کے اس انتہائی مقام پر جب وہمَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ کا مصداق بن کر اپنے نفس کو پہچان لیتا ہے تو اُسے اپنے ربّ کی پہچان اس علامت سے ہو جاتی ہے کہ اُس کے نفس پر الہاماتِ ربانی کا نزول شروع ہو جاتا ہے کیونکہ مقامِ معرفت پر پہنچ کر نفس میں کوئی نفسانی و شیطانی صفت باقی نہیں رہتی۔ اس کے بعد اگر تمام حورو قصور، نعم ہائے بہشت و تمام زینت ِ دنیا نفس کے گرد جمع ہو جائیں تو بھی وہ اُسے اختیار نہیں کرتا۔ (محک الفقر کلاں)
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے:
مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ
ترجمہ:جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا بے شک اُس نے اپنے ربّ کو پہچان لیا۔
اُمتِ محمدی کو یہ خطاب اِس لیے کیا گیا ہے کہ اِس سے آدمی کے احوال اُس کے سامنے آجاتے ہیں پھر اُس کا نفس ہوا (نفسانی خواہشات) سے اور دِل گناہوں سے مطلق بیزار ہو جاتا ہے۔ بندے کو بندگی کے لیے پیدا کیا گیا ہے، بندگی کے بغیر بندے کی ساری عمر محض شرمندگی ہے۔ (محک الفقر کلاں)
انسان کا قلب وسیع اور عظیم الشان نوری جوہر اور آئینہ حق نما ہے جو اﷲ تعالیٰ کے ذاتی نور سے منور ہوتا ہے اور تمام کائنات اس میں رائی کے دانے کے برابر نظر آتی ہے۔ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ کا نکتہ نظر یہ ہے کہ قلب و باطن میں معرفتِ الٰہی سے ایسی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے جس سے دونوں جہان کی کل کیفیات قلب میں سما جاتی ہیں اور صاحب ِنظر قلبی آنکھوں سے اس کا صاف نظارہ کرتا ہے اور عاشق ِ الٰہی تو ہمیشہ ہی اپنے قلب کی جانب متوجہ رہتا ہے۔ حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں:
قلب ایک نہایت وسیع ولایت اور ملکِ عظیم ہے۔ دونوں جہان اور تمام مخلوق اس میں سما سکتے ہیں لیکن قلب دونوں جہانوں میں نہیں سما سکتا۔ (فضل اللقا)
ہر کتابے نقطہ از دِل کتاب
دِل کتابے دفتر حق بے حساب
ترجمہ: ہر کتاب کتابِ دِل کا ایک نقطہ ہے کہ کتابِ دِل نے بے شمار دفاتر ِ حق کا احاطہ کر رکھا ہے۔ (محک الفقر کلاں)
حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ شرح دِل اور حقیقتِ قلب کے بارے میں فرماتے ہیں:
دِل کسے کہتے ہیں اور قلب کسے سمجھا جاتا ہے؟ جان لے کہ زمین کی وسعت آسمان کی وسعت کے مقابلے میں محض ایک قطرہ ہے، جملہ آسمان بلندی و فراخی ٔ لوح کے مقابلے میں ایک قطرہ ہیں، لوح قلم کے مقابلے میں ایک قطرہ ہے اور قلم عرش کے مقابلے میں ایک قطرہ ہے۔ عرشِ اکبر کے بے شمار کنگرے ہیں، ہر کنگرے پر کلمہ طیب لَآ اِلٰہَ اِلَّا ﷲُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ ﷲِ لکھا ہو اہے، ہر کنگرے پر ایک قندیل لٹکی ہوئی ہے، ہر قندیل میں قدرت ِ الٰہی سے زمین و آسمان کے چودہ طبق تہہ در تہہ رکھے ہوئے ہیں، ہر طبق میں اٹھارہ ہزار عالَم کی مخلوق آباد ہے، ہر مخلوق اپنی اپنی زبان سے کلمہ طیب لَآ اِلٰہَ اِلَّا ﷲُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ ﷲِ کا ذکر کر رہی ہے۔ عرشِ اکبر اور تمام قندیلیں دِل کے مقابلے میں اسپند کے دانے کے برابر ایک قطرہ ہیں۔ سن اے ہو شمند! جب کوئی آدمی اہلِ اسلام عارف باللہ کے دِل کو ٹھیس پہنچاتا ہے تو اٹھارہ ہزار عالم کی جملہ مخلوق بلکہ عرش و کرسی کی تمام مخلوق میں تہلکہ مچ جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے حاملانِ عرش و کرسی! تم اِس طرح جنبش میں کیوں ہو؟وہ عرض کرتے ہیں کہ ایک مومن کا دِل کسی نے دکھایا ہے اور وہ جلالیت میں آکر جبنش کر رہا ہے۔ اِس پر اللہ تعالیٰ کا قہر و غضب دکھ دینے والے پر نازل ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ میں اس سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں۔ (محک الفقر کلاں)
طالبِ مولیٰ کا قلب جب ایک بار بیدار ہو جاتا ہے تو پھر دائمی طور پر اللہ کی جانب متوجہ رہتا ہے۔ (قربِ دیدار)
حقیقت تک پہنچنے کا راستہ انسانی قلب میں ہے اور انسانی جسم میں یہی وہ جگہ ہے جہاں ذاتِ الٰہی کے جلوے نظر آتے ہیں۔ اگر قلبِ انسان پر سے زنگ اتر جائے اورحجابات کے دور ہونے کے بعد یہ صاف ہوجائے تو فطرتِ انسانی قلب کے واسطہ سے وجدانِ حقیقی تک جا پہنچتی ہے۔ گویا قلب انسان کی روحانی کیفیات کا مرکز ہے۔ اگر یہ درست ہے تو جو اعمال بھی سرزد ہوں گے وہ درست ہوں گے اور اگر یہ مرکز سیاہ ہو جائے او راپنی جگہ سے ہل جائے تو روحانی اقدار تباہ ہوجاتی ہیں۔
ذاتِ حق تعالیٰ انسان میں پوشیدہ ہے جیسا کہ حدیثِ قدسی میں اِرشاد باری تعالیٰ ہے:
اَلْاِنْسَانُ سِرِّیْ وَ اَنَا سِرُّہٗ
ترجمہ: انسان میرا راز ہے اور میں انسان کا راز ہوں۔
انسانی جسم کے اندر قلب ہی ہے جس میں ذاتِ حق جلوہ گر ہے۔ اِس حقیقت سے واقفانِ حقیقت یا طالبِ صادق ہی واقف ہوتے ہیں۔
’’عقلِ بیدار‘‘ میں حضرت سلطان باھوؒ قلب یا دل کی حقیقت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
میں نے اپنے دل میں قبلہ دیکھا اور حق کا دیدار کیا اور پھر خدا کے سامنے سربسجود ہو گیا۔
دل وجود کے اندر ﷲ کا ایک خزانہ ہے۔ اہلِ دل محمود ہیں اور اس کی نمود بھی محمود سے ہی ہے۔
خطرات کے باعث دل شیطان کا گھر بن جاتا ہے لیکن اہلِ معرفت کا دل پرنور ہوتا ہے۔
دل ایک لطیفہ ہے اور اپنی لطافت کے باعث خدا سے ملتا ہے۔ دل وحدت اور حق کی بقا کا ایک راز ہے۔
دنیا کے طالب اہلِ دل نہیں ہوتے، وہ سراسر بے حیا، روسیاہ اور شرمندہ ہوتے ہیں۔
باھوؒ اس شخص کا دل، دم اور روح ایک ہو جاتے ہیں جو ایک اﷲ کا سجدہ اور نماز صبح شام ادا کرتا ہے۔
آپؒ انسانی دل کے متعلق مزید فرماتے ہیں:
انسان کا دل دریائے عمیق کی مثل ہوتا ہے اور جسم بلبلے کی مانند ہوتا ہے۔ (نور الہدیٰ کلاں)
جان لے کہ دِل جب سِرِّ اسرار کے خزانے سے، انوارِ الٰہی کے مشاہدے سے، ذکر اللہ اور معرفتِ الٰہی سے زندہ ہو جاتا ہے اور جب دِل کے حواسِ خمسہ کھل جاتے ہیں تو ظاہری نفسانی وجود کے حواسِ خمسہ بند ہوجاتے ہیں۔ (مجالستہ النبیؐ)
چشمِ بند عینک بہ پیش چشم ِ دِل
خوش بین دیدار را در جسمِ گل
ترجمہ: ظاہری آنکھ کو بند کر لے اور دل کی آنکھ کھول کر مٹی کے جسم میں اچھی طرح دیدارِ الٰہی کر۔ (تیغ ِ برہنہ)
حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ پنجابی ابیات میں فرماتے ہیں:
ایہہ تن رَب سچے دا حجرا، وِچ پا فقیرا جھاتی ھوُ
ناں کر مِنت خواج خضر دی، تیرے اندر آب حیاتی ھوُ
شوق دا دِیوا بال ہَنیرے، مَتاں لبھی وَست کھڑاتی ھوُ
مرن تھیں اگے مر رہے باھو،ؒ جنہاں حق دی رمز پچھاتی ھوُ
آپؒ فرماتے ہیں کہ تیرا جسم ﷲ پاک کی جلوہ گاہ ہے۔ تو اپنے جسم کے اندر جھانک کر تو دیکھ اور اس خضر علیہ السلام کا محتاج نہ بن جس نے آبِ حیات پی کر حیاتِ جاودانی حاصل کر لی کیونکہ تیرے اندر تو عشقِ الٰہی کا آبِ حیات موجود ہے۔ اپنے اندر عشق کا چراغ روشن کر، شاید تجھے کھوئی ہوئی امانتِ حقیقی (ذاتِ حق تعالیٰ) مل جائے جو تیرے دِل کے اندر ازل سے پوشیدہ ہے۔ جنہوں نے اس راز کو پا لیا وہ موت سے پہلے مر گئے یعنی انہوں نے حیاتِ جاودانی حاصل کر لی۔
دِل دریا سمندروں ڈونگھا، غوطہ مار غواصی ھوُ
جیں دریا وَنج نوش نہ کیتا، رہسی جان پیاسی ھوُ
ہر دَم نال اﷲ دے رکھن، ذِکر فکر دے آسی ھوُ
اُس مرشد تھیں زَن بہتر باھوؒ، جو پھند فریب لباسی ھوُ
دل تو دریاؤں اور سمندروں سے بھی زیادہ گہرا ہے۔ اس کی گہرائی تک پہنچنے کی سعی اور جدوجہد کر کیونکہ یہاں ہی دریائے وحدت ہے اور اگر تو دریائے وحدت کو نوش کرنے میں ناکام رہا تو تیری ذات ہمیشہ دیدارِ حق تعالیٰ کی پیاسی رہے گی (اور یہ محرومی کائنات کی سب سے بڑی محرومی ہے)۔ اس مقصد کے حصول کے لئے ہمیشہ ذکر اور تصور اسم اللہ ذات کے ساتھ ساتھ دیدارِ یار کی فکر اور پریشانی میں بھی ہلکان رہ۔ لیکن اس راہ پر چلنے سے پہلے مرشد کامل اکمل کو تلاش کر کے اس کی غلامی اختیار کر کیونکہ دیدارِ حق تعالیٰ کی منزل تک وہی پہنچا سکتا ہے۔ دیکھ کہیں ناقص مرشد کے ہتھے نہ چڑھ جانا کیونکہ وہ تو طالبوں کو صرف باتوں سے بہلائے رکھتے ہیں۔ ان کے پاس دینے کو جھوٹے وعدوں کے سوا کچھ نہیں ہوتا کیونکہ وہ خود اندر سے خالی ہوتے ہیں۔ ان سے بہتر تو وہ عورت ہے جو مکار اور دھوکے باز ہونے کے باوجود کم از کم اپنے چاہنے والوں کی خواہشات کی تسکین کا سامان تو کر دیتی ہے۔
ایہہ تن رَب سچے دا حجرا، دِل کھڑیا باغ بہاراں ھوُ
وِچّے کُوزے وِچے مُصَلّے، وِچ سجدے دِیاں تھاراں ھوُ
وِچے کعبہ وِچے قبلہ، وِچے اِلَّا اﷲ پکاراں ھوُ
کامل مرشد ملیا باھوؒ، اُوہ آپے لَیسی ساراں ھوُ
جب سے باطن کی حقیقت ہم پر ظاہر ہوئی ہے کہ میرا دل تو محبوبِ حقیقی کی جلوہ گاہ ہے، میری خوشی اورمسرت کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے۔ میرے اندر ہی کوزے ہیں کہ ان سے دل کی طہارت اور پاکیزگی کا وضو کر کے اور تزکیہ نفس کے مصلّے پر کھڑے ہو کر جب محبوبِ حقیقی کے سامنے سجدہ ریز ہوا تو مجھ پر اِلَّا ﷲ (اثبات) کی حقیقت آشکارہوئی کہ کائنات میں سوائے ﷲ تعالیٰ کے کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ سب کچھ مجھے اپنے مرشد کامل سے نصیب ہوا ہے اور میرا مرشد ہمیشہ میرا نگہبان اور محافظ ہے۔
فقرا اور اولیا کرام نے انسانوں کو اپنی ذات کی پہچان کادرس دیا ہے کیونکہ جب انسان اپنے آپ کو پہچان لیتا ہے تو اسی راستہ سے اللہ تعالیٰ کی پہچان نصیب ہوتی ہے لیکن ایک بات سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ کو دوسرے اولیا کرام سے ممتاز کرتی ہے کہ دوسرے اولیا کرام انسان کو روح، قلب، من، دِل ، باطن، خودی اور ضمیر کی پہچان اور نورِ بصیرت حاصل کرنے کی تلقین تو کرتے ہیں مگر اس کی ’’کلید‘‘ کا ذکر نہیں کرتے جس سے باطن کے اندر کا سفر کیا جا سکے۔ لیکن حضرت سخی سلطان باھوؒ نے اپنی تمام تصانیف میں اس کلید اور اس کے فوائد اور اسرار و رموز کا ذکر کیا ہے۔ انسان کی روح، قلب، من، باطن، خودی اور ضمیر کا قفل کھولنے والی اور نورِ بصیرت عطا کرنے والی وہ کلید ذکر و تصور اسمِ اللہ ذات ہے بشرطیکہ یہ کسی مرشد ِکامل اکمل صاحبِ مسمیّٰ اسمِ ذات سے حاصل ہوا ہو۔
( ماخوذ از کتاب ’’شمس الفقرا‘ ‘ تصنیف ِلطیف سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس)