Sultan Bahoo

سوانحِ حیات سلطان باھو|Sultan Bahoo Urdu Biography

Spread the love

سوانحِ حیات ۔۔ حضرت سخی سلطان باھوؒ   

سلطان الفقر، سیّد الکونین، سلطان العارفین، برہان الواصلین، حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فقیر مالک الملکی اور مرشد کامل اکمل جامع نورالہدیٰ ہیں۔

آپ  رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

اکملم کامل مکمل جامع ہم نور الہدیٰ
مالک الملکی مراتب فقیر فی اللہ باخدا

ترجمہ: میں کامل اکمل مکمل و جامع نور الہدیٰ فقیر ہوں اور مالک الملکی فقیر فنا فی اللہ کے مرتبے پر فائز ہوں۔ (نور الہدیٰ کلاں)

فقرا میں ’’فقیر مالک الملکی‘‘ سب سے اعلیٰ مرتبہ ہے اور صاحبانِ تلقین و ارشاد میں مرشد کامل اکمل جامع نور الہدیٰ سب سے آخری مرتبہ ہے اور انسانِ کامل کا یہ اعلیٰ ترین مرتبہ ہے ۔ یہ مرتبہ سب مراتب کا جامع ہے، اس کے بعد کوئی مرتبہ نہیں ہے۔

آپ رحمتہ اللہ علیہ عارفین کے سلطان ہیں۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کا سب سے بڑا کار نامہ یہ ہے کہ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے سلسلہ قادری کو سلسلہ سروری قادری کے نام سے منظم کیا اور اس کے لیے تاقیامت اپنی کتب کی صورت میں فکری اثاثہ مہیا کیا اور یوں حق تعالیٰ کے متلاشی طالبانِ مولیٰ کے لیے راہِ حق کو آسان سے آسان تر بنا دیا۔

فقیرِکامل کی زندگی اللہ تعالیٰ کی مخلوق پر حجت ہوتی ہے۔ فقیر جہاں بھی زندگی گزارتا ہے جامع صفاتِ الٰہی ہونے کی وجہ سے نورِ حق سے معاشرے کو منور کرتا ہے۔ اسی طرح فقیر ِ کامل کی خانقاہ حیات بخش مرکز ہوا کرتی ہے جہاں سے لوگوںکا تزکیۂ نفس اور تصفیۂ قلب ہوتا ہے اور علم و عرفان کی ندیاں معاشرے کو سیراب کرتی ہیں۔ انسان دنیا اور حُبِّ دنیا میں مبتلا ہو کر سینکڑوں حجابات میں غرق ہو کر حق تعالیٰ کے نور سے محروم ہو جاتا ہے۔ فقیر ِ کامل کی خانقاہ اور حلقہ اُن کے زنگ آلودہ قلوب کو نورِ حق سے منور کرتا ہے اور اس طرح تزکیۂ نفس سے قربِ الٰہی نصیب ہوتا ہے۔ طالب اور سالک کی روح کی غذا فقیرِ کامل کی صحبت اور قرب ہوا کرتی ہے۔

انسانیت کے لیے فقیر مالک الملکی اور مرشد کامل اکمل جامع نور الہدیٰ حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ کی خدمات بے مثل اور بے مثال ہیں۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ تمام زندگی سفر اور سیاحت میں رہ کر لوگوں کے دِلوں کو معرفتِ حق تعالیٰ اور عشقِ الٰہی سے زندگی بخشتے رہے ۔سفر کے دوران آپ نے جہاں بھی قیام فرمایا وہاں رشدو ہدایت کا مرکز قائم ہو گیا۔

آپ رحمتہ اللہ علیہ کے فیض کا سلسلہ وصال کے بعد بھی جاری چلا آ رہا ہے۔ آپؒ کا دربار مرکز تجلیاتِ الٰہی ہے۔ کتب، شاعری اور سلسلہ سروری قادری کی صورت میں آپ رحمتہ اللہ علیہ نے ایک عظیم ورثہ چھوڑا ہے جو قیامت تک طالبانِ حق کے لیے راہنمائی کا کام کرتا رہے گا۔

 
 

 حضرت سخی سلطان باھوؒ کا سلسلہ نسب’آباؤاجداد اور والدین

حضرت سخی سلطان باھوؒ فقیر مالک الملکی اور مرشد کامل اکمل جامع نور الہدیٰ ہیں ۔
آپؒ فرماتے ہیں :
’’ میں کامل و مکمل و اکمل و نور الہدیٰ جامع مرشد ہوں اور مالک الملکی مرتبے کا جامع فقیر ہوں۔‘‘ (نور الہدیٰ کلاں)

فقرا میں ’’فقیر مالک الملکی ‘‘ سب سے اعلیٰ مرتبہ ہے اور صاحبانِ تلقین و ارشاد میں مرشد کامل اکمل جامع نور الہدیٰ سب سے آخری مرتبہ ہے اور انسانِ کامل کا یہ اعلیٰ ترین مرتبہ ہے اور یہ مرتبہ سب مراتب کا جامع ہے اس کے بعد کوئی مرتبہ نہیں ہے ۔

آپ رحمتہ اللہ علیہ  عارفین کے سلطان ہیں۔ آپؒ کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ آپؒ نے سلسلہ قادری کو سلسلہ سروری قادری کے نام سے منظم کیا اور اس کے لیے            تا قیامت اپنی کتب کی صورت میں فکری اثاثہ مہیا کیا اور یوں حق تعالیٰ کے متلاشی طالبانِ مولیٰ کے لیے راہِ حق کو آسان سے آسان تر بنا دیا۔

فقیرِ کامل کی زندگی اللہ تعالیٰ کی مخلوق پر حجت ہوتی ہے۔ فقیر جہاں بھی زندگی گزارتا ہے جامع صفاتِ الٰہی ہونے کی وجہ سے نورِ حق سے معاشرے کو منور کرتا ہے ۔ اسی طرح فقیرِ کامل کی خانقاہ حیات بخش مرکز ہوا کرتی ہے جہاں سے لوگوں کا تزکیہ نفس اور تصفیہ قلب ہوتا ہےاور علم و عرفان کی ندیاں معاشرے کو سیراب کرتی ہیں ۔ انسان دنیا اور حبِّ دنیا میں مبتلا ہوکر سینکڑوں حجابات میں غرق ہوکر حق تعالیٰ کے نورسے محروم ہو جاتاہے۔فقیرِکامل کی خانقاہ اور حلقہ اُن کے زنگ آلود ہ قلوب کو نورِ حق سے منور کرتا ہے اور اس طرح تزکیہ نفس سے قربِ الٰہی نصیب ہوتا ہے۔ طالب اور سالک کی روح کی غذا فقیرِ کامل کی صحبت اور قرب ہو ا کرتی ہے۔

انسانیت کے لیے فقیر مالک الملکی اور مرشد کامل اکمل جامع نورالہدیٰ حضرت سخی سلطان باھوؒ( Sultan Bahoo Urdu  Biography )کی خدمات بے مثل اور بے مثال ہیں ۔آپؒ تمام زندگی سفر اور سیاحت میں رہ کر لوگوں کے دِلوں کو معرفتِ حق تعالیٰ اور عشقِ الہیٰ سے زندگی بخشتےرہے سفر کے دوران آپ نے جہاں بھی قیام فرمایا وہاں رشد و ہدایت کا مرکز قائم ہو گیا۔

آپ رحمتہ اللہ علیہ  کے فیض کا سلسلہ وصال کے بعد بھی جاری چلا آرہا ہے ۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ  کا دربار مرکز تجلیاتِ الہی ہے۔ کتب، شاعری اور سلسلہ سروری قادری کی صورت میں آپ رحمتہ اللہ علیہ  نے ایک عظیم ورثہ چھوڑا ہے جو قیامت تک طالبانِ حق کے لیے راہنمائی کا کام کرتا رہے گا۔

سلسلہ نسب

 سلسلہ نسب سلطان باھوؒ

سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ  رحمتہ اللہ علیہ اعوان قبیلہ سے تعلق رکھتے ہیں اور اعوانوں کاشجرہ نسب حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے جا ملتا ہے۔ اعوان حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی غیر فاطمی اولاد ہیں۔

سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہنے اپنے دور کے دوسرے مصنفین کی طرح یہ طریقہ اختیار کیا کہ اپنی تصانیف کے شروع میں پیش لفظ کے طور پر اپنے متعلق صرف تعارفی سطور تحریر فرماتے ہیں اور پھر کتاب یا رسالے کی غرضِ تصنیف پر روشنی ڈالتے ہیں۔ انہوں نے جہاں کہیں بھی کسی تصنیف کے پیش لفظ میں اپنا ذکر فرمایا ہے وہاں اپنے نام کے ساتھ اعوان ضرور لکھا ہے۔ جیسے نور الہدیٰ کلاں میں آپ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔

’’سچ کہتا ہے مصنفِ تصنیف سروری قادری فقیر باھوؒ ، فنا فی ھوُ ولدبازیدؒ محمد عرف اعوان ساکن قلعہ شور (اللہ تعالیٰ اسے ہرقسم کے فتنوں اور ظلم و ستم سے محفوظ رکھے)۔‘‘

اسی طرح کی عبارت تھوڑی سی ردّوبدل کے ساتھ آپ رحمتہ اللہ علیہ کی ہر تصنیف کے آغاز میں ملتی ہے جس سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ آپ رحمتہ اللہ علیہ کا تعلق اعوان قبیلہ ہی سے تھا۔ اعوان کون ہیں؟ اور کہاں سے آئے ہیں؟ اس سلسلہ میں سلطان حامد علی مصنف’ مناقب ِسلطانی‘ رقم طراز ہیں ’’اعوان حضرت علی رضی اللہ عنہٗ کی نسلِ پاک سے ہیں۔ جب ساداتِ عظام نے مختلف مصیبتوں اور پریشانیوں کی وجہ سے وطن چھوڑا اور ایران اور ترکستان کے مختلف حصوں میں بودوباش اختیار کی، قبیلہ اعوان چونکہ سادات کرام کا قریبی اور نسبتی تھا اس لیے اس مصیبت اور کٹھن دور میں وہ سادات کے رفیق و معاون بنے اس وجہ سے ان کی نسبت اعوان میں تبدیل ہوگئی یعنی سادات بنی فاطمہ کی مدد کرنے والے۔ علویت اور ہاشمیت کا لقب بدل کر اعوان بن گیا۔ سادات عجم میں آکر بدستور یادِ الٰہی میں مشغول رہے لیکن قبیلہ اعوان نے جنگ و جدل اور معرکہ آرائی جاری رکھی اور ہرات پر قبضہ کرلیا اور قطب شاہ نے ہرات کے تخت پر ہی وفات پائی۔ شاہ کا لقب سادات اور قریش کے ناموں کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے لیکن اعوان بھی اپنے نام کے ساتھ شاہ کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ جب سادات خراسان سے بسبب تفرقہ، مصیبت اور پریشانی ہجرت کر کے ہندوستان میں داخل ہوئے تو قبیلہ اعوان اس سفر اور ہجرت میں ان کے رفیقِ سفر بنے اور کالاباغ کے پہاڑوں، دریائے اٹک یا دریائے سندھ کے راستے پنجاب میں داخل ہوئے۔ سادات کرام حسبِ معمول دنیاوی جاہ و حشمت کو چھوڑ کر عبادتِ الٰہی میں مشغول ہوگئے اور گوشہ نشینی اختیار کی چنانچہ اوچ شریف میں بخاری، بھوٹ مبارک میں گیلانی، چوآسیدن شاہ میں شیرازی اور دنداشاہ بلاول میں ہمدانی سادات خلقِ خدا کی رہبری اورفیض رسانی کا ذریعہ بنے۔ لیکن اعوان قبیلہ نے کالاباغ پر قبضہ کرکے دریائے اٹک کے مشرقی کنارہ کے راستہ سے جلد ہی ہندوئوں کے مضبوط قلعوں، ملک دھنی و پوٹھوہار، کوہ پکھڑو، وادی سون سکیسر، کوہ پتائو، کوہ تاواہ، کوہ کھون وغیرہ پر قبضہ کرلیا اور ان علاقوں میں آباد ہوگئے۔ یہاں کے ہندوئوں نے اعوان قبیلہ کے غلبہ اور اسلام کے زور کی وجہ سے اسلام قبول کرلیا۔ آج اعوان ان علاقوں میں کثرت سے آباد ہیں۔‘‘

احمد سعیدہمدانی لکھتے ہیں:

سلطان محمود غزنوی جب سومنات پر حملہ کرنے کے لیے ہندوستان روانہ ہوا تو اس کے ساتھ علویوں کے ایک دستے نے ہمراہی کی اجازت چاہی جس کی قیادت میرقطب شاہ یا میر قطب حیدر کر رہے تھے۔ سلطان محمود غزنوی نے بخوشی اجازت دے دی اور اس دستے کو ’’اعوان‘‘ کا خطاب دیا۔ بعدازاں اس قبیلے کے لوگ اسی لقب سے موسوم ہوئے۔

اعوانوں نے سومنات کی لڑائی میں بہادری کے جوہر دکھائے اور سلطان محمود غزنوی ان سے بہت خوش ہوا۔ جب لشکر واپس ہونے لگا تو میرقطب شاہ یا میر قطب حیدر نے سلطان سے درخواست کی کہ انہیں اور ان کے ساتھیوں کو ملک کے دوسرے علاقوں میں حکمران راجپوت سرداروں اور جاگیرداروں کی سرکوبی کے لیے مامور کیا جائے۔ سلطان نے یہ درخواست قبول کی۔ چنانچہ میرقطب حیدر اعوانوں کے لشکر کو لے کر موجودہ پوٹھوہار کے گرد ونواح اور کوہستان نمک کے علاقوں میں برسرِاقتدار جنجوعہ اور چوہان راجپوتوں پر حملہ آور ہوئے اور ان کو پسپا کر کے انہیں پہاڑوں سے نیچے دھکیل دیا اور اعوان قبائل ان پہاڑوں کی خوبصورت وادیوں پر قابض ہو کر ان میں آباد ہوگئے۔ اب یہ قطب شاہی اعوان کہلائے۔ (احوال و مقاماتِ سلطان باھوؒ)

میرقطب شاہ

میر قطب شاہ وہی ہستی ہیں جن کی سرپرستی میں اعوان سلطان محمود غزنوی کی فوج میں شامل ہوئے اور وادی سون سکیسر اور پوٹھوہار میں قیام پذیر ہوئے۔ احمدسعید ہمدانی لکھتے ہیں’’میرقطب شاہ کا شجرہ نسب حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے صاحبزادے حضرت امام محمدبن حنفیہؓ سے ملتا ہے۔ ان کے آبائو اجداد سادات فاطمی کی حمایت میں حکمرانوں سے لڑتے ہوئے اور سادات کو اپنی حفاظت میں لیے ہوئے افغانستان چلے آئے تھے اور ہرات میں آباد ہوئے۔ بعدازاں سلطان محمود غزنوی کے زمانے میں اس کے لشکر میں شامل ہوگئے۔ پوٹھوہار کے علاقے میں میرقطب شاہ کی اولاد خوب پھلی پھولی اور انہوں نے شکست خوردہ راجائوں کی بیٹیوں سے شادیاں بھی کیں جنہوں نے اسلام قبول کیا اور ان سے اولادیں بھی ہوئیں۔ میر قطب شاہ کے ساتھ آنے والے قبائل اور نو مسلم باشندوں کے درمیان ددھیال، ننھیال کے لحاظ سے مناکحت اور اولاد کا باہمی سلسلہ شروع ہوا تو بالآخر چونکہ ان کی معروف نسبی پہچان کے لیے میر قطب شاہ ہی مقتدر اور مشہور شخصیت تھے لہٰذا انہی سے منسوب ہوئے۔ اب بھی یہ لوگ کہیں بھی ہوں خود کو قطب شاہی اعوان ہی کہتے ہیں۔ لیکن یہ بات قابل ِغور ہے کہ جناب قطب شاہ وادی سون (انگہوادی سون سکیسر تحصیل نوشہرہ  ضلع خوشاب صوبہ پنجاب) میں اقامت پذیر رہے البتہ جائے قیام اور عرصہ قیام، وفات، آمد کا سن، وفات کا سن اور مزار یا قبر کے بارے میں تذکرہ نویس خاموش ہیں۔‘‘ (احوال ومقامات سلطان باھوؒ) 

سلطان حامد علی رحمتہ اللہ علیہ نے مناقبِ سلطانی میں کالاباغ کے اعوان رئیسوں کے کتب خانہ میں کسی کتاب سے حاصل کردہ حوالہ کی رو سے حضرت سلطان باھوُ  رحمتہ اللہ علیہ کے خاندان کا شجرہ نسب نقل کیا ہے جو کہ درج ذیل ہے:

سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ بن حضرت بازید محمدؒبن شیخ سلطان فتح محمدؒبن شیخ اللہ دتہ بن شیخ محمد تمیم بن شیخ محمد منان بن شیخ محمد موغلا بن شیخ محمد پیدابن شیخ محمد سگھرا بن شیخ محمد انون بن شیخ محمدسلابن شیخ محمد بہاری بن شیخ محمد جیمون بن شیخ محمد ہر گن بن شیخ انور شاہ بن شیخ امیر شاہ بن شیخ قطب شاہ بن حضرت امان شاہ بن حضرت سلطان حسین شاہ بن حضرت فیروز شاہ بن حضرت محمود شاہ بن حضرت شیخ فرطک شاہ بن حضرت شیخ نواب شاہ بن حضرت شیخ دراب شاہ بن حضرت ادھم شاہ بن حضرت شیخ عبیق شاہ بن حضرت شیخ سکندر شاہ بن حضرت شیخ احمدؒ شاہ بن حضرت حجرؒ شاہ بن حضرت امیر ز بیرؓ بن اسد اللہ الغالب امام امیر المومنین حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم بن ابی طالبؓ۔(مناقبِ سلطانی)

سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ کا شجرہ نسب میر قطب شاہ تک بالکل درست اور صحیح ہے ۔میر قطب شاہ یا میر قطب حیدر کے بعد اعوانوں کے نسب نامہ میں اختلاف شروع ہوتے ہیں جیسا کہ قبیلہ اعوان کا ایک نسب نامہ اور بھی دستیاب ہے جو کہ کالاباغ خاندان کے ہی ایک فرد ملک شیر محمد نے اپنی کتاب ’’تاریخ الاعوان‘‘ میں درج کیا ہے۔ مناقب ِسلطانی کے بیان کردہ نسب نامے اورتاریخ الاعوان کے مصنف ملک شیر محمد کے بیان کردہ نسب نامے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ سلطان حامد کے نزدیک حضرت علی کرم اللہ وجہہ تک نسب کا سلسلہ ان کے بیٹے امیر زبیرؓ کے ذریعے پہنچتا ہے جبکہ ملک شیر محمد کے نزدیک سلسلہ نسب حضرت علی کرم اللہ وجہہ تک ان کے بیٹے محمد بن حنفیہؓ کے ذریعے پہنچتا ہے۔ ملک شیر محمد ’’تاریخ الاعوان‘‘ کا شجرہ نسب ملاحظہ ہو:

میر قطب شاہ بن شاہ عطاء اللہ غازی بن شاہ طاہر بن شاہ طیب غازی بن شاہ محمد غازی بن شاہ عمر غازی بن شاہ ملک آصف غازی بن شاہ بطل غازی بن عبدالمنان غازی بن محمد بن حنفیہؓ بن علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ بن ابی طالب ؓ۔

’’مناقبِ سلطانی‘‘ کے مصنف سلطان حامد رحمتہ اللہ علیہ نے جو شجرہ نسب دیا ہے اس میں لکھا ہے کہ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ  اٹھائیس واسطوں سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے فرزند امیرزبیر رضی اللہ عنہٗ کی اولاد سے تھے اور امیر زبیر رضی اللہ عنہٗ کی والدہ کا نام میمنہ درج کیا ہے جو رستم پہلوان کی اولاد سے تھیں۔ مگر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے زبیر نام کے کسی بیٹے کا ذکرنسب کی کسی مشہور کتاب (معارف ابنِ قتیبہ، تاریخِ طبری وغیرہ) میں نہیں کیا گیا اور نہ ہی حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کے کسی پوتے کا نام ’’حجر شاہ ‘‘ منقول ہے۔ بعض لوگوں نے اس مشکل کو یوں حل کرنے کی کوشش کی ہے کہ ان کے علم کے مطابق حضرت محمد بن حنفیہ رضی اللہ عنہٗ کی کنیت ابو زبیر تھی۔ اس لیے صرف زبیر بھی لکھ دیا گیا۔صرف ’’انیس الواعظین‘‘ کے مصنف شیخ ابوبکر سندھی نے حضرت امیر زبیر رضی اللہ عنہٗ کا مختصراً ذکر کیا ہے وہ لکھتے ہیں ’’حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے لشکر سے امیر زبیر رضی اللہ عنہٗ باہر آئے۔ اس وقت امیر المومنین حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ کے ساتھ تین بھائی موجود تھے زبیر علیؓ، طلحہ علیؓ، جعفر علیؓ، جبکہ یہ زبیررضی اللہ عنہٗ ماں کے اکلوتے فرزند تھے۔ جب باہر آئے تو امیر المومنین حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ نے فرمایا! ’اے بھائی! تو ماں کا دل مت جلا کیونکہ اس کا تو کوئی فرزند ہی نہیں ہے‘۔ ماں نے وہاں سے ہی زور دار آواز دی اور کہا ’اے حسین (رضی اللہ عنہٗ)! یہ بات مت کہو، میری جان اور میرے بیٹے کی جان آپ (رضی اللہ عنہٗ) پر قربان ہو جائے۔ آپ (رضی اللہ عنہٗ) کے بغیر ہماری زندگی کس کام کی‘۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ نے زبیر رضی اللہ عنہٗ کو سینے سے لگایا اور زارو قطار رونے لگے۔‘‘ صاحبِ انیس الواعظین لکھتے ہیں کہ اس کے بعد زبیر رضی اللہ عنہٗ نے زور دار حملہ کیا اور شہید ہو گئے۔ 

محمد سرور خان اعوان ان دونوں شجروں سے اختلاف کرتے ہوئے ’’وادی سون سکیسر (تاریخ، تہذیب، ثقافت)‘‘ میں لکھتے ہیں:

یہ بات تاریخی طور پر ثابت ہے کہ اعوان قوم حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی اولاد ہیں اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ تک ان کا سلسلہ نسب آپؓ کے فرزند حضرت عباس علمدار رضی اللہ عنہٗ کی وساطت سے ملتا ہے۔ بعض مؤرخین یا تذکرہ نویسوں نے ان تاریخی شواہد کو نظرانداز کرتے ہوئے محض ظن و تخمین سے کام لے کر اعوانوں کو حضرت محمد بن حنفیہ رضی اللہ عنہٗ کی اولاد ثابت کرنے کی کوشش کی ہے جس سے (اعوانوں کی) قومی تاریخ پر شکوک و شبہات کے سائے پڑ گئے ہیں۔ ذیل میں ان حوالہ جات کا ذکر کیا جاتا ہے جن سے ثابت ہوگا کہ اعوان قوم حضرت عباس رضی اللہ عنہٗ کی اولاد ہیں اوراس کے مورثِ اعلیٰ قطب شاہ بغدادی ہیں نہ کہ ملک قطب حیدر۔

1۔ مورخین کی تصریحات کے مطابق حضرت علیؓ کے صرف پانچ بیٹوں سے نسل چلی ہے باقی فرزند یا تو لاولد فوت ہوئے یا شادی سے پہلے فوت یا کسی معرکہ میں شہید ہوگئے تھے۔ چنانچہ کتاب روضۃ الشہداء (فارسی، مطبوعہ نول کشور) فصل ’ماتم‘ کے صفحہ 377پر مرقوم ہے ’’از پنج پسران امیر عقب ماند حسنؓ و حسینؓ و محمد اکبر کہ محمد بن حنفیہ ؓ گویندوعباسؓ شہید و عمر اطرفؓ انتھی۔‘‘

2۔ مناقب المحبوبین (فارسی، مطبوعہ محمدی) ذکر حضرت علیؓ (صفحہ 11)پر ہے ’’وامانسل علی المرتضیٰؓ از پنج پسران باقی ماند یعنی امام حسنؓ و حسین ؓو محمدبن حنفیہ ؓ و محمد ابوالفضل عباسؓ وعمر اطرفؓ۔‘‘

3 ۔ کتاب نسب الاقوام (عربی، مطبوعہ ایران) و کتاب ذکر العباس اورکتاب مراۃ الاسرار کے مطابق حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ان پانچ فرزندوں سے نسل چلی: امام حسنؓ و حسینؓ ، عباس علمدارؓ، محمد بن حنفیہ ؓ اور عمر اطرفؓ۔

مندرجہ بالا حوالہ جات کے مطابق حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ان پانچ صاحبزادوں سے اولاد چلی ہے اور کتاب التخفید کے مطابق آپ رضی اللہ عنہٗ کے پانچوں فرزندوں کی اولاد کو علوی کہا جاتا ہے تاہم دیارِ ہند میں ایک امتیاز ہے کہ حسنین کریمینؓ کی اولاد کو سیّد اور باقی فرزندوں کی اولاد کو علوی کہا جاتا ہے۔

کتاب میزان ہاشمی و میزان قطبی و خلاصۃ الانساب کے مطابق اعوانوں کے مورثِ اعلیٰ قطب شاہ اولادِ عباسؓ بن علیؓ ہیں۔ چنانچہ کتب مذکورہ کی اصل عبارت اس طرح ہے:

                        ومن العلویین الاعوان و شجرتھم  ھذا’’عون بن علی بن حمزہ بن طیار بن قاسم بن علی بن جعفر بن حمزہ بن حسن بن عبداللّٰہ بن عباس بن علی بن ابی طالب ہاشم القریشی‘‘ و عون بن علی المشہور علی بن قاسم و عبدالعلی و عبدالرحمن و ابراہیم و قطب شاہ کال من البغداد مافرالی الھند و قام فصاد اولادہ اکثر ھم المشہورون بالعلویین و لبقیتم بالاعوان۔

ترجمہ: علویوں سے اعوان ہیں اور ان کاشجرہ نسب اس طرح ہے: عون بن علی بن حمزہ بن طیار بن قاسم بن علی بن جعفر بن حمزہ بن حسن بن عبداللہ بن عباسؓ بن علیؓ بن ابو طالب ؓہاشم قریشی۔ عون بن علی جو علی بن قاسم، عبدالعلی، عبدالرحمن، ابراہیم اور قطب شاہ کے نام سے بھی معروف ہیں، بغداد کے رہنے والے تھے۔ انہوں نے اور ان کی اولاد نے یہاں سے ہند کا سفر کیا اور وہاں پر کچھ عرصہ قیام کیا۔ ان کی اولاد میں کچھ لوگ علوی اور کچھ اعوان مشہور ہوگئے۔ (وادی سون سکیسر۔ تاریخ، تہذیب، ثقافت)

محمد سرور خان اعوان نے اسی کتاب میں ’’میزان ہاشمی‘‘ کی فارسی عبارت کا ترجمہ بھی درج کیا ہے جس سے قطب شاہ کے حالاتِ زندگی پر کافی روشنی پڑتی ہے:

نام مبارک عون رحمتہ اللہ علیہ ہے اور عباسؓ بن علیؓ کی اولاد ہیں۔ ان کی زوجہ محترمہ عائشہ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ کی والدہ ماجدہ حضرت فاطمہ رحمتہ اللہ علیہا کی حقیقی بہن تھیں۔ جناب عونؒ پہلے امامیہ عقائد رکھتے تھے۔ جب ان کا بیٹا گوہر علی پیدا ہوا تو ان کے دل میں شیعہ مذہب کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا ہوگئے۔ انہوں نے ماہر علما سے ان کے بارے میں کافی بحث و تمحیص کی لیکن کہیں سے تسلی نہ ہوئی پھر امامیہ عقائد کے مطابق علمائِ شیعہ سے اپنے شکوک و شبہات کو اہلِ سنت کی طرف منسوب کر کے جوابات طلب کیے لیکن ان جوابوں سے ان کی ذہنی پراگندگی اور قلبی خلجان میں اور اضافہ ہوا یہاں تک کہ 471ھ میں ان کی زوجہ کی ہمشیرہ حضرت فاطمہ رحمتہ اللہ علیہا کی گود میں حضرت غوث ا لاعظم رضی اللہ عنہٗ جلوہ فگن ہوئے۔ ایک دن جناب عون رحمتہ اللہ علیہ اپنی اہلیہ عائشہ کے ہمراہ ان کی بہن کے گھر کسی کام کی غرض سے گئے تو ان کی نظر حضرت غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ کے جمال پر پڑی تو ان کے دل سے امامیہ عقائد جڑ سے نکل گئے۔ اسی دن اہلِ سنت کے طریقہ پر نماز ادا کی اور ہمیشہ اسی طریقہ پر نماز ادا کرتے رہے یہاں تک کہ حضرت غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ کی غوثیت کا ڈنکا چار دانگ عالم میں بجنے لگا اور لوگ اطراف و اکناف سے حاضر ہو کر بیعت سے مشرف ہونے لگے۔ جناب عون رحمتہ اللہ علیہ حضرت غوث پاک رضی اللہ عنہٗ کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ رضی اللہ عنہٗ کی بیعت کی سعادت سے بہرہ مند ہوئے لیکن اس بات کو اپنے ساتھیوں سے پوشیدہ رکھا یہاں تک کہ وہ قطب ِ مدار کے درجہ پر فائز ہوئے۔ اپنے بڑے فرزند گوہر علی کو اس راز سے آگاہ کر کے حضرت غوث پاک رضی اللہ عنہٗ کی خدمت میں حاضر کیا اور وہ بھی بیعت کے شرف سے مشرف ہوئے۔ کچھ دنوں کے بعد مذہب اہلِ سنت کو اعلانیہ اختیار کرلیا اور لوگوں کو معلوم ہوگیا کہ جناب عون رحمتہ اللہ علیہ اور ان کا سارا خاندان شیعت عقائد سے تائب ہو کر غوث پاک رضی اللہ عنہٗ کا حلقہ بگوش بن چکا ہے۔ اب جناب عون رحمتہ اللہ علیہ اپنے تمام اقارب و رشتہ داروں کو ساتھ لے کر بارگاہِ غوثیت میں حاضر ہو گئے۔

حضرت غوث پاک رضی اللہ عنہٗ نے بعض کو بغداد میں ٹھہرنے اوربعض کو ہند کی طرف سفر کرنے کا حکم صادر فرمایا چنانچہ حسبِ ارشاد عون رحمتہ اللہ علیہاپنے بیٹوں عبید اللہ اور محمد کو لے کر ہندوستان روانہ ہوئے اور کچھ لوگوں کو غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ کی خدمت میں چھوڑا۔ عون رحمتہ اللہ علیہ نے چند سال ہندوستان میں قیام کر کے سلسلہ قادری کی خوب اشاعت کی۔ وہ ہند میں قطب شاہ کے لقب سے مشہور ہوئے کیونکہ وہ قطبِ مدار کے مرتبہ پر فائز تھے۔ اسی وجہ سے حضرت غوث پاک رضی اللہ عنہٗ کے مرید انہیں قطب کہتے تھے اور ہندوستانیوں نے اس کے ساتھ لفظ ’’شاہ‘‘ کااضافہ کردیا۔ پھر قطب شاہ حضرت غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ کے فرمان پر واپس بغداد پہنچے اور پہنچتے ہی مرضِ اسہال میں مبتلا ہو کر صاحبِ فراش ہوگئے۔ حضرت غوث پاک رضی اللہ عنہٗ  ان کی عیادت کے لیے تشریف لائے یہاں تک کہ شب جمعہ 3رمضان 506ھ کو داعی اجل کو لبیک کہا۔ حضرت غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ  نے نمازِ جنازہ پڑھائی۔ مقبرہ قریش میں مدفون ہوئے۔ تعزیتی رسومات سے فارغ ہو کر ہر کوئی اپنے کاروبار میں لگ گیا۔ اس وقت آپ کے بیٹے گوہر علی کی اولاد سے چار افراد تھے۔ گوہر علی عرف گولڑہ حضرت غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ کے فرمان کے مطابق اپنی اولاد کے ہمراہ ہند میں اقامت پذیر ہوگئے۔ ان کی اولاد ابھی تک ہندوستان میں موجود ہے۔ (صفحہ 105۔ 106)

محمد سرور خان اعوان مزید لکھتے ہیں:

میزان قطبی، میزان ہاشمی اور خلاصۃ الانساب کے مطابق قطب شاہؒ حضرت عباس علمدار رضی اللہ عنہٗ کی اولاد ہیں،بغداد میں پیدا ہوئے۔ وہاں سے ہند اورہرات کا سفر کیا۔ واپس بغداد پہنچ کر وفات پائی اور وہیں دفن ہوئے۔ ان کی اولاد آج بھی ہند میں موجود ہے۔ اس نظریے کے برعکس کچھ اعوان تذکرہ نویسوں نے محض سنی سنائی بے سروپا روایات کی بنیاد پر نظریہ قائم کرنے کی کوشش کی کہ اعوان حضرت محمد بن حنفیہؓ کی اولاد ہیں اوراعوان کا لقب انہیں سلطان محمود غزنوی نے فوجی خدمات کے صلہ میں دیا۔ اس سلسلہ میں انہوں نے مستند تاریخی کتب سے کوئی حوالہ پیش نہیں کیا بلکہ داستان گو اورقصہ گو لوگوں کی مبالغہ آمیز باتوں پر اپنے نظریے کی بنیاد رکھی۔‘‘ (وادی سون سکیسر۔ تاریخ، تہذیب، ثقافت)

ڈاکٹر میمن عبد المجید سندھی ’’پاکستان میں صوفیانہ تحریکیں  ‘‘میں تحریر فرماتے ہیں کہ سیّد قطب شاہ بغدادی غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ کے خلیفہ ہیں اور انہوں نے براہِ راست سیّدنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ سے خرقہ خلافت حاصل کیا تھا۔ پھر مزید تفصیل اس طرح سے تحریر فرماتے ہیں:

حضرت سیدّ عون قطب شاہ علوی بغدادی رحمتہ اللہ علیہ کئی ناموں سے مشہور ہیں مثلاً علی، عون، عبد الرحمن، عبد العلی ، ابراہیم، قطب شاہ وغیرہ۔ شجرہ نسب حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے اس طرح ملتا ہے: سیّد عون رحمتہ اللہ علیہ بن قاسم بن حمزہ ثانی بن طیار بن قاسم بن علی بن حمزہ الاکبر بن حسن بن عبد اللہ مدنی بن عباس علمدارؓ بن حضرت علی کرم اللہ وجہہ۔حضرت قطب شاہ  رحمتہ اللہ علیہ سنہ 419ھ (1028ئ) میں تولد ہوئے اور3 رمضان 552ھ (1161ئ) میں فوت ہوئے اور مقبرہ قریش میں مدفون ہوئے۔ آپ کی اولاد عرب، ایران اور برِصغیر پاک و ہند میں کثیر تعداد میں موجود ہے۔ پاکستان میں اعوان خود کو آپ کی اولاد ظاہر کرتے ہیں۔‘‘(صفحہ78)

ہم نے اعوانوں کے تما م شجروں کو درج کردیا ہے۔ اصل مقصد یہ ہے کہ حقائق کو سامنے لایا جائے لیکن اس بات کو بھی مدِنظر رکھیں کہ مناقبِ سلطانی حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہکے حالاتِ زندگی پر اولین کتاب ہے جو آپ رحمتہ اللہ علیہ کی ساتویں پشت میں سلطان حامد علیؒ نے تحر یر کی اور اعوانوں کا شجرہ کالاباغ کے رئیسوں کے کتب خانہ کی کسی کتاب سے نقل کیا ہے۔ دوسرا شجرہ نسب ملک شیرمحمد نے اپنی کتاب ’’تاریخ الاعوان‘‘ میں درج کیا ہے، ان کا تعلق بھی کالاباغ سے ہے لیکن یہ دونوں شجرے تحقیق سے خالی ہیں اور محض کتب سے نقل کردیئے گئے ہیں البتہ محمد سرور خان اعوان کاشجرہ تحقیق سے پرُ ہے اور انہوں نے اسے ثابت بھی کیا ہے۔ اہلِ تحقیق کے لیے دروازے اب بھی کھلے ہیں۔

 اعوانوں کے نسب نامے میں اس الجھاؤ اور اختلاف کے باوجود جو حقائق مصدقہ اورمسلّمہ ہیں وہ یہ ہیں کہ اس بات میں کوئی اختلاف نہیں کہ تمام شجروں کا اختتام قطب شاہ  رحمتہ اللہ علیہ  پر ہوتا ہے جن کی شخصیت پر کسی کو اختلاف نہیں۔ اعوان جہاں بھی ہوں اپنا شجرہ نسب میر قطب شاہؒ سے ہی ملاتے ہیں اور اس بات میں بھی کوئی اختلاف نہیں کہ اعوان حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی غیر فاطمی اولاد ہیں۔ لیکن جہاں تک حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ کا تعلق ہے وہ نسلی تفاخر کے قائل نہیں اورآپ رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب میں کہیں بھی اعوان قوم کی برتری کا دعویٰ نہیں کیا اور نہ ہی کہیں اپنی فضیلت آلِ علیؓ کے حوالے سے بیان کی ہے بلکہ آپ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

فقیری کا تعلق سیدّ یا قریشی یا مشہور ہونے سے نہیں بلکہ اس کا تعلق اللہ کی معرفت سے ہے، جسے چاہے اللہ عطا فرمائے۔ (نورالہدیٰ خورد) 

فقر کسی کی سات پشتی میراث نہیں ہے۔ (عین الفقر)

معرفت ودیدار کا یہ مرتبہ فیض و فضلِ الٰہی اور بخشش و عطائے الٰہی ہے، اللہ جسے چاہتا ہے اس سے نوازدیتا ہے۔ درویشی کے ان مراتب کا تعلق حسب و نسب، شہرت یا سیدّ و قریشی ہونے سے نہیں بلکہ دردِ دِل، ہمت اور صدق سے ہے۔ (نور الہدیٰ کلاں) 

حضرت سخی سلطان باھوؒ کے اجداد

سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ کے اجداد وادی سون سکیسر (تحصیل نو شہرہ ضلع خوشاب) کے گاؤں انگہ میں رہائش پذیر رہے اور آپ رحمتہ اللہ علیہ کے آبائواجداد کے مزارات اور متعلقہ مقامات کے آثار اب تک انگہ اور اس کے گرد و نواح میں موجود ہیں۔ انگہ کے قبرستان میں سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ  کے دادا حضرت سلطان فتح محمد رحمتہ اللہ علیہ کا مزار ہے۔  اس کے ساتھ ہی سلطان العارفین رحمتہ اللہ علیہ کی دادی محترمہ کا مزار مبارک بھی ہے۔ اس قبرستان سے ذرا آگے درمیان میں سڑک ہے اوراس سڑک کے ساتھ ہی پرانا قبرستان ہے جہاں پر آپ رحمتہ اللہ علیہ  کے نانا کی تربت مبارک موجود ہے۔

والدین

سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ کے والدِمحترم کا اسمِ گرامی حضرت سلطان بازید محمد رحمتہ اللہ علیہ تھا۔ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ اپنی کتب کے شروع میں اپنا تعارف جن الفاظ سے کراتے ہیں اس سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے یعنی ’’تصنیف فقیر باھوؒ ولد بازیدمحمد عرف اعوان۔‘‘

حضرت بازید محمدرحمتہ اللہ علیہ پیشہ ور سپاہی تھے اور شاہجہان کے لشکر میں ایک ممتاز عہدے پر فائز تھے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ صالح، شریعت کے پابند اور حافظِ قرآن تھے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی جوانی لشکر کے ساتھ بسر کی اور تمام جوانی جہاد کی نذرکردی۔

 ڈھلتی عمر میں شاہی دربار چھوڑ کر چپ چاپ واپس اپنے علاقے میں چلے آئے اورایک رشتہ دار ہم کفو خاتون حضرت بی بی راستی رحمتہ اللہ علیہا سے نکاح فرمایا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کی اہلیہ بی بی راستی رحمتہ اللہ علیہا عارفہ کاملہ تھیں اورپاکیزگی اورپارسائی میں اپنے خاندان میں معروف تھیں۔ اکثر ذکر اور عبادت میں مشغول رہتی تھیں۔ وادی سون سکیسر کے گائوں انگہ میں وہ جگہ اب تک معروف و محفوظ ہے جہاں آپ رحمتہ اللہ علیہا ایک پہاڑی کے دامن میں چشمہ کے کنارے ذکر اسمِ اللہ ذات میں محو رہا کرتی تھیں۔ 

سلطان العارفین حضرت سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ اپنی تصانیف میں اپنی والدہ محترمہ سے عقیدت و محبت کا بارہا اظہار فرماتے ہیں ’’ مائی راستی صاحبہ  (رحمتہ اللہ علیہا )کی روح پر اللہ تعالیٰ کی صدبار رحمت ہو کہ انہوں نے میرا نام باھوؒؒ رکھا۔‘‘ آپ رحمتہ اللہ علیہ عین الفقر میںفرماتے ہیں:

راستیؒ از راستی آراستی
رحمت و غفران بود بر راستیؒ

ترجمہ: حضرت بی بی راستی رحمتہ اللہ علیہا سچائی سے آراستہ ہیں ۔ یااللہ! تو حضرت بی بی راستی رحمتہ اللہ علیہا پر رحمت نازل فرما اور ان کی مغفرت فرما۔ 

آپ رحمتہ اللہ علیہ کی والدہ کا پایہ فقر میں بہت بلند تھا اور وہ فنا فی ھوُ کے مرتبہ پرتھیں۔ اپنے بچے کا نام باھوؒؒ رکھا تو اس بنا پر کہ آپ رحمتہ اللہ علیہا کو بارگاہِ حق تعالیٰ سے سلطان العارفین حضرت سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ کی ولادت اور بلند مرتبہ کی اطلاع مل چکی تھی اس لیے آپ رحمتہ اللہ علیہا نے حکمِ الٰہی کے تابع آپ رحمتہ اللہ علیہ کا نام باھوؒ رکھا۔سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ کی ابتدائی تربیت بی بی رحمتہ اللہ علیہا نے کی اورآپ رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی والدہ سے ہی ابتدائی باطنی تربیت بھی حاصل کی۔

محک الفقر(کلاں) میں آپ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں: 

میری والدہ کو ایسا ذکر حاصل تھا کہ آنکھوں سے خون نکلتا تھا۔ یہ حال مجھ پر بھی وارد ہوا۔ اس کو ’حضور ِحق‘ کہتے ہیں۔

حضرت سلطان بازید محمد رحمتہ اللہ علیہ نکاح کے بعد جب اپنی اہلیہ محترمہ حضرت بی بی راستی رحمتہ اللہ علیہا کے ساتھ رہنے لگے تو ان کی پارسائی اور عبادت گزاری سے بہت متاثر ہوئے۔ اب وہ خود عمر کے اس مرحلے پرتھے جب آدمی اپنے اندر تجزیے میں مصروف ہوتا ہے کہ زندگی میں کیا کھویا، کیا پایا۔ کچھ فیضِ ازلی نے آپ کو متوجہ کیا تو آپ رحمتہ اللہ علیہ نے دنیا ترک کردی اورطے کیا کہ آئندہ اسبابِ دنیاداری سے الگ رہ کر وہ بھی صرف یادِ خدا میں زندگی بسر کریں گے۔ دل میں یہ قصد لے کر ایک دن آپ رحمتہ اللہ علیہ کسی کو بتائے بغیر گھر سے نکل کھڑے ہوئے اور ملتان پہنچے۔ چونکہ آپ رحمتہ اللہ علیہ فوج چھوڑ کر گئے تھے اور سلطنتِ دہلی سے آپ رحمتہ اللہ علیہ کا حلیہ مشتہر کیا جا چکا تھا اس لیے سرکاری اہلکار آپ رحمتہ اللہ علیہ کی تلاش میں تھے۔ ملتان میں آپ رحمتہ اللہ علیہ پہچان لیے گئے اورحاکم ِملتان کے سامنے پیش کیے گئے۔ جب ملتان کے حاکم نے حضرت بازید محمد رحمتہ اللہ علیہ کا چہرہ مبارک، لباس، آلاتِ جنگ اور سواری کی گھوڑی (شیہن) دیکھی تو آپ رحمتہ اللہ علیہ سے بہت متاثر ہوا اور آپ رحمتہ اللہ علیہ کا دو روپیہ یومیہ وظیفہ مقرر کیا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ  ملتان میں ایک مکان کے اندرتنہائی میں یادِ الٰہی میں مشغول ہو گئے اور بالآخر ولی اللہ اوربارگاہ ِالٰہی کے مقبول بندے ہوئے۔

’’پس جس شخص کو ہادی مطلق ظاہری وسیلہ (یعنی سبب) کے بغیر خود فیض و فضل سے اپنے قرب کی طرف کھینچ لے اسے مجاہدات کی کیا ضرورت ہے اور وہاں دیر ہی کیا ہے۔ اس راہ میں عقل کا گھوڑا لنگڑا ہے۔ یہ فضلِ الٰہی ہے جسے چاہے عنایت کردے اور اللہ تعالیٰ صاحبِ فضلِ عظیم ہے۔‘‘(فرمانِ غوث الاعظمؓ) 

آپ رحمتہ اللہ علیہ کے ملتان میں قیام کے دوران حاکمِ ملتان اور راجہ مروٹ کے درمیان جنگ چھڑ گئی۔ چونکہ آپ رحمتہ اللہ علیہ تنہا ملازم تھے اس لیے اس خدمت کے لیے آپ رحمتہ اللہ علیہ کو کسی نے یاد نہیں کیا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ خود بخود گھوڑی پر ضروری اسباب باندھ کر اور ہتھیار لگا کر ملتان کے حاکم کی خدمت میں پہنچے اور کارِخدمت کی درخواست کی۔ حاکم نے پوچھا ’’آپ  لشکر میں کس برادری کے جتھہ میں شریک ہو کر جنگ کریں گے؟‘‘عرض کیا ’’چونکہ میں اکیلا تنخواہ کھاتا رہا ہوں اب جو کچھ مجھ سے ہوگا اکیلا ہی خدمت کروں گا‘‘۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کی یہ بات سن کر دربار کے تمام امرا مسکرا دیئے۔ حاکم نے کہا ’’کوئی مضائقہ نہیں جس طرح یہ مرد کہے اسی طرح کرنا چاہیے۔ ‘‘پھر آپ رحمتہ اللہ علیہ نے عرض کی ’’ایک شخص راستہ کا واقف اور ایک تصویر راجہ مروٹ کی عنایت ہو۔‘‘ چنانچہ دونوں چیزیں مہیا کردی گئیں۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ سلام کر کے روانہ ہوئے اور جب قلعہ مروٹ کے قریب پہنچے تو ساتھی کو رخصت کیا اور خود شہر کی راہ لی۔ ایک ہی چھلانگ میں آپ رحمتہ اللہ علیہ کی گھوڑی قلعہ کی فصیل پار کر گئی۔ قدرت دیکھیے کہ آپ رحمتہ اللہ علیہ سیدھے راجہ مروٹ کی کچہری میں جا ٹھہرے اور سب درباریوں کی موجودگی میں راجہ کا سر کاٹ کر قربوس سے لٹکے ہوئے توبڑہ میں رکھ لیا۔ اس اچانک افتاد سے تمام درباریوں پر حالتِ سکتہ طاری ہوگئی اور کسی کو آپ رحمتہ اللہ علیہ کی طرف بڑھنے کی جرأت نہ ہوئی۔ شہر کے تمام دروازے بند کردیئے گئے تاکہ آپ رحمتہ اللہ علیہ فرار نہ ہو سکیں لیکن آپ رحمتہ اللہ علیہ کی شیہن گھوڑی پھرایک ہی چھلانگ میں قلعے کی فصیل پھلانگ گئی۔

 حضرت بازید محمد رحمتہ اللہ علیہ جب ملتان کے حاکم کے دربار میں راجہ مروٹ کا سر اکیلے لے کر داخل ہوئے تو آپ رحمتہ اللہ علیہ کی یہ کرامت دیکھ کر حاکم حیران رہ گیا۔آپ رحمتہ اللہ علیہ کے اس کارنامے کی شہرت جب دہلی کے دربار تک پہنچی تو پہچان لیے گئے اور شاہجہان نے آپ رحمتہ اللہ علیہ کو واپس بلوایا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے معذرت کی اور کہا کہ باقی عمر یادِ خدا میں بسر کرنا چاہتا ہوں۔ لہٰذا ان کی سابقہ خدمات کے پیشِ نظر یہ درخواست نہ صرف منظور ہوئی بلکہ شور کوٹ کی جاگیر بھی انہیں عطا ہوئی جس کا رقبہ 25ہزار ایکڑ زمین پر مشتمل تھا۔ آپ  رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی اہلیہ کے ساتھ انگہ کو چھوڑ کر شورکوٹ میں رہائش اختیار کرلی۔ تاریخ میں حضرت بازید محمد رحمتہ اللہ علیہ اور حضرت بی بی ر استی رحمتہ اللہ علیہا کے درست سنِ وفات کا تذکرہ نہیں ملتا۔ مناقبِ سلطانی سے بس اتنا معلوم ہوا ہے کہ حضرت بازید محمد رحمتہ اللہ علیہ کا انتقال سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ کے بچپن میں ہی ہوگیا تھا۔ لیکن مائی صاحبہ رحمتہ اللہ علیہا اس وقت بھی زندہ تھیں جب سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ کی عمر مبارک 40سال تھی۔ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھورحمتہ اللہ علیہ کے والدین کے مزار مبارک شورکوٹ شہر میں ہیں اور مزارات مائی باپ حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ کے نام سے مشہور و معروف ہیں۔

سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ کے والدین کے مزارات، جیسا کہ اوپر ذکر ہو چکا ہے، شور کوٹ ضلع جھنگ میں ہی ہیں لیکن مناقبِ سلطانی میں ایک سہو کی وجہ سے سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ کی والدہ محترمہ بی بی راستی رحمتہ اللہ علیہا کے مزارکی جگہ کے بارے میں کچھ اختلاف پایا جاتا ہے۔ صاحبِ مناقبِ سلطانی کے نزدیک بی بی راستی رحمتہ اللہ علیہا کا مزار مبارک ملتان میں ہے نہ کہ شور کوٹ میں۔ سلطان حامد تحریر کرتے ہیں ’’جناب (سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ) کے والد بزرگوار کا مزار قصبہ شور کوٹ میں ہے جو آنحضرت کی جائے پیدائش ہے۔قصبہ مذکورہ کے شمال مغربی گوشہ میں قریشی صاحبان کی مسجد کے صحن میں شیخ طلحہ قریشی کی قبر کے پاس مزار اور خانقاہ ہے۔ جناب کی والدہ ماجدہ کے مزار کے بارے میں اختلاف ہے بعض کہتے ہیں کہ یہیں مسجد میں جو دو مزار ہیں آنحضرت کے والدین کے مزار مبارک ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ ملتان کے گردو نواح میں لطف آباد کے قریب بی بی پور کے سادات عظام کے قبرستان میں ہے جو کہ رانواں کلاں نامی گائوں میں ہے جو سلطنتِ دہلی کی طرف سے آنحضرت کے والد کو بطور جاگیر ملا تھا اور بودوباش بی بی پور مذکورہ میں نیک لوگوں، شریفوں اور سادات عظام کے پڑوس میں اختیار کی تھی وہیں وفات پائی اور سادات شریف کے مقبروں کے پاس جگہ پائی۔‘‘(مناقبِ سلطانی۔ بابِ اوّل۔ فصل دوم)

’’تذکرہ اولیائے جھنگ‘‘ کے مصنف بلال زبیری بھی صاحبِ مناقبِ سلطانی سے متفق نظر آتے ہیں، لکھتے ہیں:

اس پاک خاتون (بی بی راستی رحمتہ اللہ علیہا) کا انتقال شاہ جہان کے آخری سالِ حکومت 1068ھ میں ہوا۔ آپ کا جسد قبرستان بیبیاں ملتان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

جب تذکرہ اولیائے جھنگ کے پہلے، دوسرے اور تیسرے ایڈیشن میں اس عبارت کی اشاعت پر بہت زیادہ تنقید اور اعتراضات ہوئے تو بلال زبیری صاحب نے چوتھے ایڈیشن میں اِن اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے لکھا :

’’ حضرت سلطان العارفین سلطان محمد باھوُ رحمتہ اللہ علیہ  کی والدہ محترمہ کے مزار کے بارے میں اختلاف پیدا ہوا۔ میری تالیف میں اُن کا مدفن قبر ستان بیبیاں ملتان میں مذکور ہے مگر بعض بزرگوں نے اسے غلط بتایا ہے۔ ان کی خدمت میں دست بستہ گذارش ہے کہ مزار کے متعلق واضح ترین سند کوئی نہیں ہے صرف کتاب مناقبِ سلطانی سے ہی مزار کے مقام کا تعین ہو سکتا ہے۔ حضرت بی بی راستی رحمتہ اللہ علیہا کے حالات کے تحت متذکرہ صدر کتاب کا پورا حوالہ موجود ہے جس سے غلط فہمی کا ازالہ ہو سکتا ہے۔‘‘(صفحہ 10۔اشاعتِ چہارم)

اب ہم تحقیق کے مطابق اس اختلاف کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ صاحبِ مناقبِ سلطانی نے بی بی راستی رحمتہ اللہ علیہا کے مزار مبارک کی جگہ ملتان میں کیوں تحریر کی۔ پہلے وہ منطقی دلائل تحریر کیے جاتے ہیں جو ہر صاحبِ تصنیف نے اپنی تصنیف میں اس لیے تحریر کیے ہیں کہ ثابت کیا جاسکے کہ آپؒ کے والدین پاک کے مزارات وہی ہیں جو شور کوٹ میں ’’مزارات مائی باپ‘‘ کے نام سے مشہور و معروف ہیں نہ کہ ملتان میں ہیں: 

1۔ سلطان حامد رحمتہ اللہ علیہ  مناقبِ سلطانی میں ہی تحریر کرتے ہیں کہ سلطان العارفین حضرت سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ کے والد کا انتقال تو بچپن میں ہی ہو گیا تھا لیکن آپ رحمتہ اللہ علیہ کی والدہ محترمہ بی بی راستی رحمتہ اللہ علیہا اس وقت بھی حیات تھیں جب سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ کی عمر 40سال تھی یعنی 1078ھ تک سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ کی والدہ محترمہ بقید ِ حیات تھیں اور یہ اورنگ زیب کا دورِ حکومت ہے نہ کہ شاہ جہاں کا۔ پھر آپؒ جب سیّد عبد الرحمن جیلانی دہلوی رحمتہ اللہ علیہ کی بیعت کے لیے دہلی تشریف لے گئے تو آپ رحمتہ اللہ علیہ کی والدہ محترمہ اس وقت بھی زندہ تھیں اور شور کوٹ میں ہی قیام پذیر تھیں۔

2۔ کوئی ایسی روایت موجود نہیں ہے کہ حضرت بی بی راستی رحمتہ اللہ علیہا انگہ سے شور کوٹ منتقل ہونے کے بعد سے لے کر اپنے شوہر کی حیات میں یا وصال کے بعد شور کوٹ سے باہر تشریف لے گئی ہوں۔

3۔ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ m کے والد نے شور کوٹ میں ایک وسیع جاگیر چھوڑی تھی۔ حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ تو اس طر ف توجہ نہیں دیتے تھے اِس لیے تمام جاگیر کی دیکھ بھال بی بی راستی رحمتہ اللہ علیہا کی ہی ذمہ داری تھی ۔اس ذمہ داری کی وجہ سے آپ رحمتہ اللہ علیہا کو کبھی شور کوٹ سے باہر نکلنے کی فرصت ہی نہیں ملی۔

4۔ والدہ محترمہ کے وصال کے وقت سلطان العارفین حضرت سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ چالیس سال یا اس سے زائد عمر کے تھے اور بوقتِ وصال حیات بھی تھے اور موجود بھی تھے۔ انہوں نے یقینا اپنی والدہ محترمہ کو اپنے آبائی شہر اور اپنے والد محترم کے پہلو میں ہی دفن کیا ہوگا نہ کہ کسی دور دراز علاقہ میں لے گئے ہوں گے۔

مندرجہ بالا تمام دلائل یہ حقانیت ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ والدہ محترمہ سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ کا مزار مبارک شور کوٹ میں ہی ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ قبرستان بیبیاں جو اَب ملتان شہر کے ریلوے سٹیشن کے جنوب میں واقع ہے اور بی بی پاک دامن یا پاک مائی کے قبرستان کے نام سے مشہور ہے اس میں ’’بی بی راستی‘‘ کا فیروزی رنگ کی کاشی کی خوبصورت اینٹوں کا تعمیر شدہ قدیم مزار مبارک موجود ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ کی والدہ محترمہ بی بی راستی رحمتہ اللہ علیہا شور کوٹ میں مدفون ہیں تو یہ بی بی راستی کون ہیں جو یہاں مدفون ہیں؟

تحقیق کے مطابق حضرت بی بی راستی رحمتہ اللہ علیہا جو یہاں مدفون ہیں وہ فرغانہ کی شہزادی تھیں اور اپنے والد سلطان جمال الدین محمد الفرغانی کے ہمراہ سہروردی سلسلہ کے مشہور بزرگ حضرت بہائو الدین زکریا ملتانی رحمتہ اللہ علیہ کی زیارت کے لیے آئی تھیں۔ سلطان جمال الدین محمدالفرغانی نے حضرت بہائوالدین زکریا  رحمتہ اللہ علیہ کے دستِ مبارک پر بیعت کر لی اور اُن کے حلقہ ارادت میں شامل ہوگئے۔ اُن کی صاحبزادی شہزادی بی بی راستی کی شادی حضرت بہائوالدین زکریا رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے بڑے صاحبزادے حضرت صدر الدین عارف رحمتہ اللہ علیہ سے کردی اور عصمت مآب اور پاک دامن کا لقب عطا فرمایا۔آپ ؒپاک مائی بی بی پاک دامن کے لقب سے مشہور ہوئیںاور انہی بی بی راستی رحمتہ اللہ علیہا کے بطن مبارک سے حضرت شیخ رکن الدین ابو الفتح رحمتہ اللہ علیہ کی ولادت باسعادت ہوئی ۔ شہزادی بی بی راستی رحمتہ اللہ علیہا کا وصال 695ھ میں ہوا اور قبر ستان بیبیاں میں دفن ہوئیں۔

ڈاکٹر میمن عبد المجید سندھی ’’پاکستان میں صوفیانہ تحریکیں‘‘ میں ان بی بی راستی ؒ کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

حضرت رکن الدین ابو الفتح عظیم المرتبت پیر ِطریقت تھے……حضرت صدر الدین عارفؒ کے فرزند اور حضرت غوث بہائو الدین زکریا ملتانی ؒکے پوتے تھے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کی والدہ ماجدہ کا نام بی بی راستی تھا جو زہد و تقویٰ کی وجہ سے اپنے وقت کی رابعہ بصری کہلاتی تھیں۔ انہوں نے اپنے سسر حضرت بہائو الدین زکریا رحمتہ اللہ علیہ سے روحانی و باطنی تعلیم و تربیت حاصل کی تھی۔ قرآنِ مجید کی تلاوت سے انہیں خاص شغف تھا۔ روزانہ کلامِ مجید ختم کرتی تھیں۔ (فصل پنجم۔ صفحہ389)

قبرستان بیبیاں (قبرستان بی بی پاک دامن یا پاک مائی) میں مدفون بی بی راستی رحمتہ اللہ علیہا حضرت بہائوالدین زکریا رحمتہ اللہ علیہ کی بہو، حضرت صدر الدین رحمتہ اللہ علیہ کی زوجہ محترمہ اور حضرت رکن الدین ابوالفتح رحمتہ اللہ علیہ کی والدہ ماجدہ ہیں ۔

 یہ سہو صاحبِ ’مناقبِ سلطانی‘ سلطان حامدؒصاحب سے کیونکر ہوا؟اس سلسلہ میں عرض ہے کہ مناقبِ سلطانی کی تصنیف کے دوران سلطان حامد ملتان تشریف لے گئے تھے اور بی بی راستی رحمتہ اللہ علیہا کے مزار پر حاضری دی تھی جس کا ذکر انہوں نے مناقبِ سلطانی میں بھی فرمایا ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ نام کی مماثلت کی وجہ سے اُن سے یہ سہو ہو گیا ہو۔ سلطان العارفین حضرت سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ کے مستند سوانح نگار اس پر متفق ہیں کہ   سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ  رحمتہ اللہ علیہ کے والد اور والدہ محترمہ کے مزارات وہی ہیں جو شور کوٹ میں ’’مزارات مائی باپ‘‘ کے نام سے مشہور و معروف ہیں۔

Click to rate this post!
[Total: 2 Average: 3]

Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں