توکل
ﷲ پر بھروسا ’’توکل‘‘ کہلاتا ہے۔ ﷲ پاک سے عشق کا تقاضا ہے کہ اپنا ہر کام بلکہ اپنا آپ ﷲ پاک کے سپرد کر دیا جائے۔ توکل کو فقر کی بنیاد سمجھا جاتا ہے۔ کامل مرشد کا پہلا سبق بھی یہی ہوتا ہے اور ایک طالبِ مولیٰ کی نشانی بھی یہی ہے کہ وہ متوکل ہوتا ہے۔ قرآنِ مجید میں بار بار اس طرف توجہ دلائی گئی ہے:
اِنْ کُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ بِاللّٰہِ فَعَلَیْہِ تَوَکَّلُوْٓا اِنْ کُنْتُمْ مُّسْلِمِیْنَ۔ (سورۃ یونس۔ 84)
ترجمہ: اگر تم اللہ پر ایمان لائے ہو تو اسی پر توکّل کرو اگر تم (واقعی) مسلمان ہو۔
حضرت نوح علیہ السلام سے جب ساری قوم مخالفت اور عداوت کا اظہار کرتی ہے تو آپؑ فرماتے ہیں:
فَعَلَی اللّٰہِ تَوَکَّلْتُ فَاَجْمِعُوْٓا اَمْرَکُمْ (سورۃ یونس۔71)
ترجمہ: میرا تو اﷲ پر توکل ہے، تم سب اپنی تدبیریں کر لو۔
حضرت یعقوب علیہ السلام جب بنیامین کو مصر بھیجنے لگے تب ان کے بھائیوں سے عہد لیا اور عہد لینے کے بعد فرمایا:
اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ ط عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ ج وَ عَلَیْہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُتَوَکِّلُوْنَ۔ (سورۃ یوسف۔67)
ترجمہ: حکم تو اﷲ کا ہے دوسرے کا نہیں۔ میرا اسی پر توکل ہے اور متوکل لوگوں کو بھی اسی پر اعتماد کرنا چاہیے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ (سورۃ النمل۔79)
ترجمہ: پس تم ﷲ پر ہی توکل کرو۔
اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُتَوَکِّلِیْنَ۔ (سورۃ آلِ عمران۔159)
ترجمہ: بیشک اللہ توکل کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
اِنْ یَّنْصُرْکُمُ اللّٰہُ فَلَا غَالِبَ لَکُمْ ج وَ اِنْ یَّخْذُلْکُمْ فَمَنْ ذَا الَّذِیْ یَنْصُرُکُمْ مِّنْ م بَعْدِہٖ ط وَ عَلَی اللّٰہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ۔ (سورۃ آلِ عمران۔160)
ترجمہ: اگر ﷲتمہاری مدد کرے تو کوئی تم پر غالب نہیں آ سکے گا اور اگر وہ تمہیں چھوڑ دے تو پھر کون ایسا ہے جو تمہاری مدد کرے اور مومنوں کو تو ﷲ پر ہی توکل کرنا چاہیے۔
وَ عَلَی اللّٰہِ فَتَوَکَّلُوْٓا اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ۔ (سورۃ المائدہ۔23)
ترجمہ: اور اللہ پر ہی توکل کرو اگر تم ایمان والے ہو۔
ہر معاملے میں اللہ پر توکل کرنا ہی ایمان کی نشانی ہے خصوصاً رزق کے معاملے میں۔ رزق کسی جگہ کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ رزق ہر جگہ عام ہے، جو جہاں ہو اس کے حصے کا رزق اُسے وہیں پہنچ جاتا ہے۔ جو لوگ ایک مقام سے ہجرت کرکے دوسری جگہ چلے جاتے ہیں اور صبر کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کے توکل کے باعث انہیں وہیں روزی پہنچانے کے اسباب پیدا فرمادیتا ہے جس طرح پرندوں اور جانوروں کو اللہ تعالیٰ ہر جگہ روزی مہیا کر دیتا ہے۔ رزق حاصل کرنے کے لئے انسان کو اللہ پر توکل کر نا چاہیے۔ رزق کے معاملے میں متوکل ہونے کے بارے میں ایک مقام پر ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے:
وَّ یَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ ط وَ مَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ فَھُوَ حَسْبُہٗ (سورۃ الطلاق۔3)
ترجمہ: اور اس کو ایسی جگہ سے رزق دے گا جہاں سے گمان بھی نہ ہو۔ اور جس نے اللہ پر توکل کیا اس کے لیے اللہ کافی ہے۔
متوکل شخص کو اللہ تعالیٰ ایسی جگہ سے رزق مہیا کردیتا ہے جہاں سے اسے گمان تک نہیں ہوتا اس لئے جو رزق کے سلسلہ میں اللہ پر توکل کرتے ہیں ان کے لئے اللہ کافی ہے۔
حضرت عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’اگر تم اللہ تعالیٰ پر اس طرح توکل کرو جیسے توکل کرنے کا حق ہے تو تمہیں پرندوں کی طرح روزی دی جائے کہ صبح کو بھوکے نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھر کر واپس آتے ہیں۔‘‘ (ابن ِ ماجہ 307، ترمذی 2344)
حضرت ابودرداءؓسے روایت ہے کہ رسول ﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’رزق بندے کو اس طرح تلاش کرتا ہے جیسے اس کی موت اسے تلاش کرتی ہے۔‘‘
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اگر میرے بندے توکل کریں تو میں رات کو ان پر بارش برساؤں اور دِن میں ان پر سورج طلوع کرتا رہوں اور انہیں گرج کی آواز نہ سناؤں۔‘‘ (مسند امام احمد)
حضرت عمران بن حصینؓ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’جو اللہ پر توکل کرتا ہے اللہ اس کے لیے کافی ہو جاتا ہے اور اسے بلاگمان رزق دیتا ہے۔‘‘ (کنز العمال)
حضرت عبد اللہ بن عباس ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’اے لڑکے! اللہ کے حقوق کی حفاظت کرو تو وہ تمہارے حقوق کی حفاظت کرے گا اور تم اسے سامنے پاؤ گے اور جو کچھ مانگنا ہو اللہ سے مانگو اور جب مدد درکار ہو تو اُس سے مدد لو اور جان لو کہ اگر تمام دنیا اس بات پر تل جائے کہ کسی چیز کے ساتھ تمہیں نفع پہنچائے تو نہیں پہنچا سکے گی مگر وہی جو اللہ نے تمہارے لئے لکھ دیا ہے۔ اور اگر تمام لوگ تمہیں کسی چیز کے ساتھ نقصان پہنچانے پر تُل جائیں تو نقصان نہیں پہنچا سکیں گے مگر وہی جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے لکھ دیا ہے۔ قلم اٹھالیے گئے اور دفتر خشک ہو چکے ہیں۔‘‘ (احمد، ترمذی)
پیر انِ پیر حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ نے فرمایا:
تو اپنے رزق کے بارے میں فکر نہ کر کیونکہ رزق کو جتنا تو تلاش کرتا ہے اس سے زیادہ رزق تجھے تلاش کرتا ہے۔ جب تجھے آج کے دِن کا رزق مل گیا تو آنے والے دِن کے رزق کی فکر نہ کر جس طرح تو گزشتہ دِن کو چھوڑ گیا کہ وہ دِن گزر گیا، آنے والے دِن کا تجھے معلوم نہیں کہ آتا ہے یا نہیں، اس لیے تو آج کے دِن میں مشغول رہ۔ (الفتح الربانی۔ مجلس 17)
تو اپنے درہم اور دینار پر بھروسا نہ کر کیونکہ یہ تجھے عاجز اور ضعیف بنا دے گا۔ اللہ تعالیٰ پر بھروسا (توکل) کر یہ تجھے قوی بنادے گا اور تیری مدد کر ے گا۔ تجھ پر لطف و کرم کی بارش برسائے گا اور جہاں سے تیرا گمان بھی نہ ہو گا وہیں سے تیرے لیے فتوحات لائے گا۔ تیرے دِل کو اتنی قوت عطا فرمائے گا کہ تجھے نہ دنیا کے آنے کی پرواہ ہوگی اور نہ اس کے چلے جانے کی اور نہ مخلوق کی توجہ اور نہ بے رخی کی کچھ پرواہ ہوگی۔ پس تو اس وقت سب سے قوی بن جائے گا۔ لیکن جب تو اپنے مال و جاہ اور اہل و عیال اور اسباب پر بھروسا کرنے لگے گا تو اللہ تعالیٰ کے غضب کا اور اِن چیزوں کے زوال کا نشانہ بن جائے گا۔ (الفتح الربانی۔ مجلس42)
سرکارِدو عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا فرمان ہے ’’ملعون ہے وہ شخص جس کا بھروسا (توکل) اپنی جیسی مخلوق پر ہو۔‘‘ کثرت کے ساتھ اس دنیا میں وہ لوگ ہیں جو اس لعنت میں شامل ہیں۔ مخلوق میں ایک آدھ ہی ایسا ہو گا جو اللہ تعالیٰ پر بھروسا رکھتا ہے۔ پس جس نے اللہ تعالیٰ کی ذات پر توکل کیا اس نے مضبوط رسی کو پکڑ لیا اور جس نے اپنی جیسی مخلوق پر بھروسا کیا اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص مٹھی کو بند کرے اور پھر کھولے تو اسے ہاتھ میں کچھ نظر نہ آئے۔ (الفتح الربانی۔ مجلس45)
توکل اسباب کو قطع کردینے اور سبب کو چھوڑ دینے کا نام ہے۔ (الفتح الربانی)
حضرت سری سقطیؒ کا ارشاد ہے کہ قوت اور اختیار کو ترک کرنے کا نام توکل ہے۔
حضرت ابنِ مسروق رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے احکام اور اسکی قضا کے سامنے سرِتسلیم خم کر دینے کا نام توکل ہے۔
حضرت بایزید بسطامی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ’’اگر زمین و آسمان لوہے کے بن جائیں، اگر آسمان سے پانی نہ برسے اور اگر زمین سے اناج پیدا نہ ہو تو بھی میں اپنے توکل سے نہ پھروں گا۔‘‘
علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
خدا کے پاک بندوں کو حکومت میں، غلامی میں
زِرہ کوئی اگر محفوظ رکھتی ہے تو استغنا
(بالِ جبریل)
سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
توکل فقر کی بنیادہے۔ اللہ پاک سے عشق کا تقاضا ہے کہ اپنا ہر کام اللہ کے سپرد کر دیا جائے، ظاہری طور پر تو کوشش کی جائے لیکن باطنی طور پر اللہ پر توکل کرکے طالب اپنی مرضی سے دستبردار ہو جائے۔
متوکل طالبِ مولیٰ پر شیطان کا زور نہیں چلتا۔ وہ ہر کام میں اللہ پر توکل اور بھروسا کرتا ہے جس سے اللہ کی مدد شاملِ حال ہوتی ہے۔
متوکل طالب روزی معاش کی فکر نہیں کرتا۔ عام لوگوں کا رزق کوشش اور جدوجہد کے نتیجے میں ملتا ہے لیکن خواص کا رزق اللہ تعالیٰ مہیا کرتا ہے۔
حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ ﷲ علیہ نے بھی توکل کو فقر کی بنیاد قرار دیا ہے۔ جو طالب متوکل نہیں ہے وہ راہِ فقر پر چل نہیں سکتا۔ بلکہ آپؒ تو فقیر کے بارے میں فرماتے ہیں:
توکل اس کا نام ہے کہ ملک کے تمام خزانے اس (فقیر) کے قبضے میں ہوں لیکن خود بالکل تارک ہو اور مسلمانوں کو فائدہ پہنچائے۔ (عقلِ بیدار)
توکل ایک نور ہے جو پانی کی مثل ہے اور فقرا اس سے سیراب ہوتے ہیں۔ توکل کا یہ پانی ان کے وجود کو کامل صحت اور جمعیت بخشتا ہے۔ (کلید التوحید کلاں)
آپؒ فرماتے ہیں:
روئے زمین پرکوئی ایسا ذی روح نہیں ہے جس کے رزق کا ضامن اﷲ تعالیٰ نہ ہو۔ (اسرارِ قادری)
راہِ توکل اختیار کر کے صرف اللہ کے قرب پر راضی ہوجائو۔ (عین الفقر)
عوام کا رزق کسبِ اعمال سے آتا ہے اور خواص کا رزق معرفتِ حق، جو کہ لم یزل اور لازوال ہے، سے آتا ہے۔ متوکل روزی معاش کی فکر نہیں کرتا اور نہ ہی ربیع و خریف فصل کا منتظر ہوتا ہے کیونکہ جب (روزِ ازل) رزق لکھا جا چکا تھا تو قلم ٹوٹ گئی۔ مردہ دل آدمی کا رزق حرص ہے اور حرص کا پیٹ نہیں ہوتا اور نہ ہی حرص کرنے والا مال و دولت سے کسی بھی حال میں سیر ہوتا ہے کیونکہ وہ غلط راستے پر ہوتا ہے اور عارفین کا رزق یہ ہے کہ رات دن حق تعالیٰ کے وصال میں مستغرق رہتے ہیں اور رزق رات دن ان کے پیچھے سرگردان اور پریشان رہتا ہے۔ اس حقیقت کو ناشائستہ، بے توکل، بے معرفت، بے عمل، بے دانش، بے مذہب اور جاہل لوگ کیا جانیں! جیسا کہ کیڑے کا رزق گوبر ہے اور وہ اسی میں خوش رہتا ہے اور عطار کا رزق عطر ہے وہ اس سے معطر رہتا ہے۔ جو مولیٰ کی طلب میں ہو رزق اس کی طلب میں ہوتا ہے۔ (کلید التوحید کلاں)
رزق ہر چند باسباب تعلق دارد
روزِ میثاق اسباب ہائے مسبب انگیخت
ترجمہ: اگرچہ رزق اسباب سے تعلق رکھتا ہے لیکن ان اسباب کو بھی روزِ میثاق مسبب نے پیدا فرمایا۔ (کلید التوحید کلاں)
ہمہ عالم ز دل و جان بسبب بستہ کمر
کمتر است آنکہ دل و جان بمسبب انگیخت
ترجمہ: تمام عالم دل و جان سے اسباب کے پیچھے بھاگ رہا ہے لیکن دل و جان سے مسبب کی طرف جانے والے لوگ بہت کم ہیں۔(کلید التوحید کلاں)
رزق گر بر آدمی عاشق نمی بودی
چرا از زمین گندم گریبان چاک می آمد برون
ترجمہ: رزق اگر انسان پر عاشق نہ ہوتا تو گندم زمین کا سینہ چیر کر باہر کیوں آتی۔(کلید التوحید کلاں)
قسمت بھی چار قسم کی ہے۔ فقرا کی قسمت یہ ہے کہ وہ جو کچھ کھاتے پیتے ہیں اُس سے اُن کے وجود میں معرفتِ الٰہی کا نور پیدا ہوتا ہے، ان کا رزق توکل کی راہ سے آتا ہے۔ توکل اِسے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں جس ذریعے سے بھی رزق پہنچاتا ہے وہ اُسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے سمجھتے ہیں۔ بعض کا خیال ہے کہ رزق کسب سے آتا ہے، بعض حصولِ رزق کے لیے علم پڑھتے ہیں اور بعض ظلم و تعدی سے غریبوں سے چھین کر رزق حاصل کرتے ہیں۔ الغرض فقر ہی ایک ایسی دولت ہے کہ جس میں سعادت و عزت و افتخار کے مراتب پائے جاتے ہیں۔ فقر کے مراتبِ عظمیٰ اللہ تعالیٰ اُس صاحبِ عظمت کو عطا فرماتا ہے جو اُس سے یگانہ ہوجاتا ہے، بیگانے تو فقر کا منہ بھی نہیں دیکھ پاتے۔ (محک الفقر کلاں)
سن اے جانِ عزیز! میں تجھ سے مخاطب ہوں کہ خدا سے برتر کوئی نہیں ہے۔ مخلوق رزق کو تلاش کرتی ہے اور فقرا رازق کو تلاش کرتے ہیں۔ مخلوق کی نظر سیم و زر پر رہتی ہے اور فقرا کی نظر اپنے مولیٰ قادرِ اکبر پر رہتی ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کا فرمان ہے ’’جو آدمی اللہ کی محبت میں مرا وہ شہید کی موت مرا۔‘‘ طالبِ مولیٰ شہید ہے اور طالبِ دنیا طلبِ مولیٰ سے بے نصیب ہے۔ دونوں جہان میں طلبِ مولیٰ جیسی پیاری و برتر چیز اور کوئی نہیں۔ (محک الفقر کلاں)
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ پنجابی ابیات میں فرماتے ہیں:
تلہہ بنھ توکل والا، ہو مردانہ تریئے ھوُ
جس دُکھ تھیں سکھ حاصل ہووے، اُس دُکھ تھیں نہ ڈریئے ھوُ
اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسراً آیا ، چت اُسے وَل دھریئے ھوُ
اوہ بے پرواہ درگاہ ہے باھوؒ، اُوتھے رو رو حاصل بھریئے ھوُ
اﷲ تعالیٰ پر بھروسا اور توکل کر کے مردانہ وار راہ ِفقر پر چلنا چاہیے۔ جس دکھ کے بعد سکھ حاصل ہونا ہو اس دکھ کا سامنا کرتے ہوئے نہیں ڈرنا چاہیے۔ قرآنِ پاک کے اس حکم کو یاد رکھنا چاہیے کہ ہر تکلیف اور تنگی کے ساتھ آرام اور آسانی شامل ہوتی ہے۔ اﷲ تعالیٰ تو بے نیاز اور بے پرواہ ہے۔ اس سے رو رو کر ’وصال‘ طلب کرنا چاہیے۔
دلیلاں چھوڑ وجودوں، ہو ہشیار فقیرا ھوُ
بنھ توکل پنچھی اُڈدے، پلے خرچ نہ زیرا ھوُ
روز روزی اُڈ کھان ہمیشہ، نہیں کردے نال ذخیرا ھوُ
مولا خرچ پہنچاوے باھوؒ، جو پتھر وِچ کیڑا ھوُ
اس بیت میں سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ طالبِ مولیٰ سے مخاطب ہیں اور فرماتے ہیں کہ دنیوی ضروریات کے لئے قطعاً غم زدہ نہ ہو کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے جو رزق مقدر میں لکھ رکھا ہے وہ ضرور ملے گا۔ پرندے بھی تو اﷲ تعالیٰ کے توکل پر اڑتے پھرتے ہیں اور روزی کا ایک ذرہ بھی اپنے ساتھ نہیں اٹھائے پھرتے پھر بھی شام کو جب واپس آشیانوں کی طرف پلٹتے ہیں تو سیر ہو کر لوٹتے ہیں اور ساتھ ذخیرہ کرنے کے لئے ایک دانہ بھی نہیں لاتے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ﷲ پاک تو وہ رازق ہے جو پتھر کے اندر موجود کیڑے کو بھی رزق دیتا ہے۔
طالبِ مولی کو ہر لمحہ، ہرکام اور ہر منزل پر اللہ تعالیٰ پر ہی توکل کرنا چاہیے۔ پس بہتر ہے کہ طالبِ مولیٰ اپنا ہر معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دے اور خود کو درمیان سے ہٹا دے جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَ اُفَوِّضُ اَمْرِیْٓ اِلَی اللّٰہِ ط اِنَّ اللّٰہَ بَصِیْرٌم بِالْعِبَادِ۔(سورۃ المومن۔44)
ترجمہ: میں اپنا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کرتا ہوں، بے شک اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی خبر گیری کرتا ہے۔
( ماخوذ از کتاب ’’شمس الفقرا‘ ‘ تصنیف ِلطیف سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس)