khalifahs

Sultan Bahoo khalifahs سلطان باھو کے خلفاء

Spread the love

 حضرت سخی سلطان باھوؒ کے خلفاء

راہِ فقر میں خلافت سے مراد مرشد کامل نور الہدیٰ (انسانِ کامل) کا مختلف سالکین کی تربیت فرما کر اور انہیں اپنی کسی ایک صفت یا چند صفات سے متصف فرما کر خلقِ خدا کو تلقین کے لیے مختلف جگہوں یا علاقوں میں متعین کرنا ہے۔ ان کو خلیفہ، جس کی جمع خلفا ہے، کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ہم فقر کی اصطلاح میں اس کو یوں بیان کر سکتے ہیں کہ امانتِ فقر جس طالب کو منتقل ہوتی ہے وہ ذاتِ شیخ میں کامل فنا ہوتا ہے یعنی اپنے شیخ کی ذات مع مکمل صفات کا مظہر ہوتا ہے اور اس کے لباس میں شیخ ہی ملتبس ہوتا ہے۔ اصطلاحِ تصوف میں اِسے خلیفہ اکبر کہتے ہیں اور یہ ایک ہی ہوتا ہے جبکہ خلیفہ اپنے شیخ کی کسی ایک صفت میں فنا ہو تا ہے اور اپنے شیخ کی کسی نہ کسی صفت کا مظہر ہوتا ہے۔ اصطلاحِ تصوف میں اِسے خلیفہ اصغر یا خلفا اصغر کہا جاتا ہے، اِن کی تعداد معین نہیں ہے۔ اصل ہدایت کا منبع تو امانتِ الٰہیہ کا حامل’’ انسانِ کامل‘‘ ہی ہوتا ہے۔ خلفا اس کے نمائندوں کے طورپر کام کرتے ہیں اور مخلوقِ خدا کی راہبری کا فریضہ سر انجام دیتے ہیں۔ خلافت کے لیے ضروری نہیں ہے کہ سالک فنا فی اللہ یا بقا باللہ ہی کے مقام پر فائز ہو بلکہ ضرورت کے مطابق اس کی تربیت کرکے اسے اس کی ڈیوٹی پر متعین کردیا جاتا ہے۔ انسانِ کامل اور اس کے خلفا کو ہم ایک مثال کے ذریعہ سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جیسا کہ ایک بجلی گھر پورے شہر کو بجلی سپلائی کرتا ہے لیکن شہر کے ہر علاقے کا ایک ٹرانسفارمرہوتا ہے، اصل کرنٹ اوربجلی تو بجلی گھر سے آ رہی ہوتی ہے لیکن ٹرانسفارمر اپنی اپنی استطاعت کے مطابق اسے اپنے اپنے علاقوں میں سپلائی کر رہے ہوتے ہیں۔ اسی طرح اصل باطنی قوت تو مرشد کامل اکمل نور الہدیٰ کی ہوتی ہے جو خلفا کے قلوب سے منعکس ہو کر سالکین تک پہنچتی ہے۔ خلافت میں کسی غلطی پر باطنی قوت سلب کر لی جاتی ہے۔ اس سے یہ ہوتا ہے کہ مرشد کامل اکمل نور الہدیٰ کے قلب سے جو نور خلیفہ کے قلب میں آ رہا ہوتا ہے وہ بند ہو جاتا ہے یا اسے کسی غلطی کی وجہ سے رجعت ہو جاتی ہے لیکن انسانِ کامل چونکہ خلافتِ الٰہیہ کا حامل اور محبوبیت کے مرتبہ پر فائز ہوتا ہے اس لیے اس کی قوت سلب نہیں ہوتی یا اسے رجعت نہیں ہوتی۔ سلسلہ سروری قادری میں خلافت بہت کم عطا کی جاتی ہے۔ اس سلسلہ میں مرشد کامل اکمل چونکہ انسانِ کامل کے مرتبہ پر فائز اور امانتِ الٰہیہ یعنی تصورِ اسمِ اللہ ذات کا حامل ہوتا ہے اس لیے طالب کو اللہ تعالیٰ کی پہچان کے لیے اس کی محفل میں رہ کر اسمِ اللہ ذات کاتصور کرنا ضروری ہے کیونکہ خلفا سے وہ چیز عطا نہیں ہو سکتی جو اسے یہاں سے بلاواسطہ عطا ہو جائے گی۔ البتہ مرشد کامل نور الہدیٰ کے ظاہری وصال کے بعد خلفا کی باطنی قوت کئی گنا تک بڑھ جاتی ہے کیونکہ عام طور پر انسانِ کامل ایک ہی جگہ دوبار ظاہر نہیں ہوتا اور پھر سالکین کو اس کی پہچان نئی جگہ پر کافی دیر کے بعد ہوتی ہے۔

اسی طرح سجادہ نشینی یا گدی نشینی کی اصطلاح آج کل عام ہو گئی ہے اور عام طور پر لوگ اسی کو اہل ِمزار کا روحانی اور باطنی جانشین یا نائب سمجھتے ہیں جو گدی پر بیٹھا ہو۔ انگریزوں کے دور سے قبل تک تو یہ بات بالکل درست تھی کہ سجادہ نشین یا گدی نشین عام طور پر اہلِ مزار کا روحانی اور باطنی نائب یا جانشین ہی ہوا کرتا تھا لیکن انگریزوں نے مسلمانوں کے اس عظیم خانقاہی نظام کو تباہ کرنے کے لیے اس کو وراثت میں شامل کردیا۔ اب قانونِ وراثت کے تحت دوسری جائیداد کی طرح بطور وراثت ظاہری اولاد کو گدی یا سجادہ نشینی ملتی ہے خواہ وہ اس کے اہل ہوں یا نہ ہوں۔ اگر اہل ِمزار اپنے وصال سے قبل اپنے دل کے محرم یا روحانی و باطنی جانشین کو گدی نشین مقرر کردے تو عدالت کے ذریعہ چند ماہ کے اندر اندر ا سے بے دخل کردیا جائے گا اور گدی یا سجادہ نشینی اولاد کو بطور وراثت منتقل ہو جائے گی۔ عدالتوں کے اندر گدی یا سجادہ نشینی کی جنگ اکثر لوگوں نے دیکھی ہوگی یا اخبارات میں پڑھی ہوگی بلکہ اب تو اس کے حصول کے لیے قتل و غارت گری تک نوبت آگئی ہے کیونکہ گدی کے ساتھ جائیداد اور مزار کی آمدن منسلک ہوتی ہے اور اب تو گدی کی وجہ سے سیاست میں بھی اعلیٰ مقام حاصل ہو جاتا ہے۔

 حضرت سخی سلطان باھوؒ کے چند مشہور خلفاء

سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ کے دربار پاک سے لاکھوں لوگوں نے فیض پایا اور صاحبِ حال ہوئے لیکن ہم اِس ضمن میں صرف اُن خلفا کا ذکر کریں گے جنہوں نے براہِ راست آپ  رحمتہ اللہ علیہ سے خلافت پائی۔

 حضرت سلطان نورنگ کھیتران رحمتہ اللہ علیہ

ایک مرتبہ حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ سیاحت کی غرض سے پنجاب میں دامانِ کوہ مغربی جبلِ اسود تشریف لے گئے جہاں آپ رحمتہ اللہ علیہ نے ایک چھوٹے سے بچے کو گائے چراتے ہوئے دیکھا۔ اس بچہ کے فیضِ ازلی نے آپ رحمتہ اللہ علیہ کے فیض کو جنبش دی اور آپ رحمتہ اللہ علیہ نے ایک ہی نگاہ سے اسے مجذوب الی اللہ کردیا۔ نور نے بچے کے جسمِ مطہرہ کو منور کردیا اور پھر وہ بچہ پروانہ وار حضرت سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ کے گرد فدا ہونے لگا۔ اس بچہ کا نام سلطان نور نگ کھیتران رحمتہ اللہ علیہ تھا ۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ تیس سال تک اپنے مرشد حضرت سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں رہے، اس کے بعد شرفِ خلافت سے مشرف ہو کر رخصت ہوئے۔ ان کا مزار مبارک جبل ِ اسود کے دامن میں ڈیرہ غازی خان کے نزدیک قصبہ ’’ وھو آ ‘‘ میں زیارت گاہِ خاص وعام ہے اور آپ کے دربار کو ’’سلطان صاحب کا دربار‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ حضرت سلطان نورنگ  رحمتہ اللہ علیہ  نے اپنے پیرو مرشد کے فیض کو عام کرنے کیلئے ہزاروں لوگوں کو تلقین وارشاد سے مشرف فرمایا اور آج بھی آپ رحمتہ اللہ علیہ  کے مزار مبارک سے فیضِ روحانی جاری ہے۔

 حضرت لعل شاہ رحمتہ اللہ علیہ

حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ ایک بار سفر کے دوران فیضِ روحانی کو عام کرتے ہوئے علاقہ سنگھڑ کے قصبہ جنگ میں تشر یف لے گئے اورایک مسجد میں قیام فرمایا۔ اتفاقاً ایک بچہ جس کا نام لعل شاہ تھا اور عمر سات آٹھ سال تھی مسجد میں آپ رحمتہ اللہ علیہ  کی نظروں کے سامنے سے گزرا۔ اس بچے پر آپ رحمتہ اللہ علیہ کی توجہ مبارک کا ایسا اثر ہوا کہ اس میں جذبہ ء ِعشقِ الٰہی پیدا ہوگیا اور وہ ساری رات آپ رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں بیٹھا رہا ،نہ گھر گیا اور نہ آپ رحمتہ اللہ علیہ سے جدا ہوا۔ اس بچے کے وارث جب تلاش کرتے ہوئے صبح مسجد آئے تو اُسے حضرت سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں پایا۔ انہوں نے بہت کوشش کی کہ بچے کو گھر لے جائیں مگر وہ بچہ کسی طرح بھی گھر جانے پرراضی نہ ہوا۔ لوگوں نے جا کر لعل شاہ رحمتہ اللہ علیہ کے والد بڈھن شاہ کو آگاہ کیا تو بڈھن شاہ اپنے مریدوں اور دیگر معزز دوستوں کے ہمراہ حضرت سلطان باھوؒ کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور عرض کی ’’حضرت اس بچے کو اجازت دیں کہ یہ اپنے گھر چلا جائے اس کی ماں بہت پریشان ہے۔ ‘‘ حضرت سلطان باھو  رحمتہ اللہ علیہ نے بڈھن شاہ سے فرمایا کہ یہ بچہ تمہاری ملکیت نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے اس کا فیض اور نصیبہ میرے سپرد فرمایا ہے لہٰذا اس بچے کی روحانی تربیت اب میری ذمہ داری ہے۔ یہ سن کر بڈھن شاہ پر لرزہ طاری ہوگیا اور اس نے ہاتھ باندھ کر عرض کیا ’’یا حضرت ! لعل شاہ اب آپ ہی کے سپرد ہے۔‘‘ بڈھن شاہ امیر کبیر پیروں کے خاندان سے تھا، اس نے دوسری شادی کی ہوئی تھی او ر لعل شاہ اور پہلی بیوی (لعل شاہ صاحب کی والدہ) کو لاوارثوں کی طرح رکھا ہوا تھا اور ان ما ں بیٹے کی کوئی پرواہ نہیں کرتا تھا ۔ جب لعل شاہ رحمتہ اللہ علیہ کی والدہ کو معلوم ہوا تو اس پاک باز عورت نے حضرت سلطان باھو  رحمتہ اللہ علیہ کی بارگاہ میں پیغام بھیجا کہ میرا صرف ایک ہی بیٹا لعل شاہ ہے اوراسی کی امید پرجی رہی ہوں۔ آپ اجازت فرمائیں تو باپردہ آپ  کی بارگاہ میں حاضر ہوجائوں اور اپنے بیٹے کے ہمراہ آپ کی بارگاہ میں ہی رہوں ۔ بڈھن شاہ نے بھی اپنی پہلی بیوی کوپردہ میںحضرت سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ کی بارگاہ میںحاضری کی اجازت دیدی ۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ وہ باپردہ خاتون گھر میں ہی بیٹھی رہے اور بے پردہ ہو کر باہر نہ آئے ۔اس عورت نے جب یہ سنا تو زارو قطار رونے لگی اور عرض کرنے لگی کہ یا حضرت مجھے کیوں فیض اور نعمتِ ازلی سے محروم رکھتے ہیں، آپ جیسے سخی اور فیاض کے فیض سے میں کیوں محرو م رہوں۔ یہ سن کر حضرت سلطان باھو  رحمتہ اللہ علیہ  نے وہیں بیٹھے بیٹھے توجہ کی اور اسے گھر بیٹھے ہی نواز دیا ۔ یہ مائی صاحبہ اتنی صاحبِ حال ہوگئیں کہ کسی دنیاوی کام میں مشغول نہ ہوتی تھیں، اگر کبھی روٹی پکانی پڑ جاتی تو توے پر روٹی ڈال کر سکرومستی میں چلی جاتیں اور روٹی توے پر ہی جل جاتی۔

حضرت سلطان باھو  رحمتہ اللہ علیہ لعل شاہؒ کو اپنے ہمراہ لے گئے اور اسی وقت اپنے خادم ،جو آپ رحمتہ اللہ علیہ کے ساتھ رہتا تھا،سے فرمایا کہ میرا وضو کا لوٹا، جائے نماز اور مسواک لعل شاہ کے حوالے کردو۔ لعل شاہ رحمتہ اللہ علیہ اس کے بعد تیس سال تک حضرت سلطان باھو  رحمتہ اللہ علیہ کے ہمراہ رہے اور اس ساری مدت میں ان کی کل متاع ایک سیاہ کمبل تھا جو آدھا نیچے بچھا لیتے او رآدھا اوڑھ لیتے ۔ جب تیس سال کے بعد حضرت سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ نے خلافت عطا کرکے رخصت فرمایا اور گھر تشریف لے گئے تو بدستور اسی سیاہ کمبل کا لباس زیبِ تن فرمائے رکھا صرف سوتی کپڑے کی ایک پگڑی کا اضافہ فرمالیا۔ اپنے وطن سنگھڑ میں قیام فرما کر تلقین وارشاد کا سلسلہ جاری فرمایا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ  نے یہیں وصال فرمایا اور یہیں پر آپ رحمتہ اللہ علیہ کا مزار ہے۔ 

 حضرت سلطان طیب رحمتہ اللہ علیہ

حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ ایک بار بھکر تشریف لے گئے۔ وہاں حضرت شعلی رحمتہ اللہ علیہ کے فرزند حضرت شیر شاہ  رحمتہ اللہ علیہ کے ایک مرید اور خلیفہ حضرت سلطان طیب رحمتہ اللہ علیہ رہائش پذیر تھے، ان کے ہاں اولادِ نرینہ نہ تھی ۔ سلطان طیب کو جب آپ رحمتہ اللہ علیہ  کی تشریف آوری کا پتہ چلا تو خدمت میں حاضر ہو کر دعا کے طالب ہوئے۔ اس وقت حضرت سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ کے پاس دو سیب پڑے تھے۔ حضرت سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ نے دونوں سیب سلطان طیب کو دے دئیے اور ارشاد فرمایا ’’اپنی بیوی کو کھانے کیلئے دے دو۔ انشاء اللہ، اللہ تعالیٰ تمہیں دو فرزند عطا فرمائے گا، ان میں سے ایک تو تمہارے کام کا ہوگا اور ایک ہمارے کام کا۔‘‘ پس اللہ تعالیٰ نے سلطان طیب رحمتہ اللہ علیہ کو دو فرزند عطا کیے۔ ایک کا نام انہوں نے سلطان عبد اور دوسرے کا سلطا ن سوہارا رکھا ۔ سلطان عبد پیدائشی مجذوب تھے ۔ جب حضرت سلطان طیب رحمتہ اللہ علیہ کے پیرومرشدحضرت شیرشاہ رحمتہ اللہ علیہ کو معلوم ہوا کہ اُن کے خلیفہ نے حضرت سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں پیش ہو کر اپنی حاجات عرض کی ہیں تو انہیں اپنے مرید پر سخت رنج اور غصہ آیا اور اپنے خلیفہ کا سارا فیض اور باطنی نعمت سلب کرلی اور سلطان طیب گونگے لنگڑے ہو کر گھر میں پڑرہے ۔ جب حضرت سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ کو باطنی طور پر سلطان طیب رحمتہ اللہ علیہ کا حال معلوم ہوا تو آپ رحمتہ اللہ علیہ  حضرت شیر شاہ رحمتہ اللہ علیہ پر بہت ناراض ہوئے اور حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بارگاہ میں شکایت کی۔ اس پر بارگاہِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے یہ فیصلہ ہوا کہ حضرت شیر شاہ رحمتہ اللہ علیہ  اپنے مرید سلطان طیب کو پہلے سے ساٹھ گنا زیادہ فیض اور نعمت عطا فرمائیں۔ 

 حضرت سلطان حمید رحمتہ اللہ علیہ

سلطان حمیدرحمتہ اللہ علیہ  حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ کے اہم خلفا میں شمارہوتے ہیں۔ عشقِ مرشد میں آپ رحمتہ اللہ علیہ کا مقام بہت بلند ہے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ  کے حالاتِ زندگی بہت کم معلوم ہیں۔ ’’ مناقبِ سلطانی‘‘سے صرف اتنا معلوم ہوا ہے کہ سلطان حمید رحمتہ اللہ علیہ حضرت سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ کے ہمراہ بھکر تشریف لے گئے اور بھکر کے نواح میں سیر کیلئے نکلے ۔سلطان باھورحمتہ اللہ علیہ   میدان چول میں ایک ویران ٹیلے پر پہنچے، ابھی آپ رحمتہ اللہ علیہ  نے بیٹھنے کا ارادہ ہی کیا تھا کہ فوراً اٹھ کھڑے ہوئے اور فرمایا ’’حمید ! اس ٹیلے سے جلدی نیچے اُترو یہ کسی ظالم کا مکان ہے۔‘‘

 بعد ازاں آپ رحمتہ اللہ علیہ ایک اور جگہ ریت کے میدان میں سوئے او راپنا سر سلطان حمید رحمتہ اللہ علیہ کے زانو پر رکھا اور ایک گھڑی آرام کیا جس سے آپ رحمتہ اللہ علیہ کا بدن خاک آلود ہوگیا ۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کی یہ حالت دیکھ کر سلطان حمیدرحمتہ اللہ علیہ کا دل بہت رنجیدہ ہوااور سوچنے لگے کہ کاش میرے پاس دنیاکی دولت ہوتی تو آج میں بھی اپنے مرشد اور ہادی کابستر ریشم اور مخمل کا بنواتا۔ میری غربت کی وجہ سے میرے مرشد کا جسم خاک آلودہوا ہے۔اتنے میں حضرت سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ نے اپناسران کے زانو سے اٹھایا اور فرمایا ’’حمید ! تو نے کیا خیال کیا ؟‘‘

انہوں نے عرض کردیا ۔ فرمایا! ’’آنکھیں بند کرو ۔‘‘ سلطان حمید رحمتہ اللہ علیہ نے آنکھیں بند کیں تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک باغ ہے جس میں ایک خوبصورت مجلس آراستہ ہے اور اس میں ایک خوبصورت عورت جڑائو زیور اور ریشمی کپڑے پہنے سلطان حمید رحمتہ اللہ علیہ سے رغبت کرتی ہے اور کہتی ہے کہ مجھ سے نکاح کرلو ۔ سلطان حمید رحمتہ اللہ علیہ نے اسے اشارے اور نرم زبان سے اپنے سے دور رہنے کو کہا او رکہا کہ یہ ادب کا مقام ہے میں اپنے ہادی اور مرشد کی خدمت میں حاضر ہوں۔اسی اثنا میں مراقبہ سے سراٹھایا توآپ رحمتہ اللہ علیہ نے ان سے پوچھا’’ حمید تو نے کیا دیکھا ؟‘‘ انہوں نے جو کچھ دیکھا تھا عرض کردیا ۔ 

حضرت سلطان باھورحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا’’ تو جو دنیاوی مال کے نہ ہونے کی اپنے دل میں شکایت اور غم کررہا تھا، یہ ہی دنیا تھی کیوں اسے قبول نہ کیا ؟ اگر اس کو قبول کرلیتے تو مال ودولت کبھی تمہارے گھر سے ختم نہ ہوتا۔‘‘سلطان حمید رحمتہ اللہ علیہ نے عرض کیا ’’حضور! میں اللہ تعالیٰ سے اس کی ذات کا نور چاہتا ہوں، میں مال ودولت نہیں چاہتا ۔‘‘ حضرت سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا ’’ فقر ِ محمدیؐ کا اثر تیرے خاندان سے نہیں جائے گا‘‘ اور یہ بات سچ ثابت ہوئی۔ سلطان حمید رحمتہ اللہ علیہ کا مزار بھکر کے شمال کی طرف دامن چول پر میاں عثمان کے قبرستان میں ہے۔

 حضرت سید موسیٰ شاہ جیلانی رحمتہ اللہ علیہ

آپ رحمتہ اللہ علیہ کا اصل نام سیدّ محمد موسیٰ شاہ ہے لیکن موسن شاہ کے لقب سے مشہور و معروف ہوئے۔ آپ کا سلسلہ نسب سیدّ عبد الجبار رحمتہ اللہ علیہ کے ذریعہ غوث الاعظم حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ تک پہنچتا ہے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کا سلسلہ نسب اس طرح سے ہے:
سیدّ موسیٰ شاہؒ بن سیدّ عابدؒ بن سیدّ عبد الجلیلؒ بن سیدّکمال الدین شاہ بن سیدّ مبارک شاہ بغدادی عادل پوری بن سیدّ حسین دہلوی بن سیدّ محمد مکی العربی بن سیدّ یونس بن سیدّ احمد بن سیدّ جعفر بن سیدّ عبد القادر ثانی بن سیدّ ابو نعمان بن سیدّ حمید الدین بن سیدّ عبد الجلیلؒ بن سیدّ عبد الجبارؒ بن غوث الاعظم محی الدین سیدّ عبد القادر جیلانیؓ۔

 آپ رحمتہ اللہ علیہ گھوٹکی (سندھ) کے رہائشی تھے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کے والد سیدّ عابد آپ کی کم عمری میں ہی وفات پاچکے تھے۔ ایک درویش کمہار حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ سے ملاقات کی غرض سے پنجاب گیا تو آپ رحمتہ اللہ علیہ بھی اس کے ہمراہ سلطان باھورحمتہ اللہ علیہ کی زیارت کے لیے تشریف لے گئے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کو حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ نے حصولِ علم کی تلقین کی اور ان کی والدہ محترمہ کو نصیحت بھیجی کہ اس کمسن بچے کو پہلے ظاہری علوم کی تکمیل کرائیں اور پھر میرے پاس بھیج دیں۔ چنانچہ آپ رحمتہ اللہ علیہ واپس تشریف لے گئے اور حصولِ علم کے بعد دوبارہ اسی درویش کے ہمراہ حضرت سلطان باھو  رحمتہ اللہ علیہ کی ملاقات اور زیارت کو آئے۔ اس وقت حضرت سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ  وصال فرما چکے تھے مگر آپ رحمتہ اللہ علیہ نے وصال سے ایک روز قبل اپنی انگشت مبارک سے اسمِ اللہ لکھا اور اپنے فرزندوں کے حوالے کیا اور وصیت فرمائی کہ جنوب کی طرف سے موسن شاہ آرہے ہیں اُن کو دے دیں۔ موسن شاہ رحمتہ اللہ علیہ نے جیسے ہی اس اسمِ اللہ ذات کو دیکھا کامل و مکمل ہوگئے۔ اس کے بعد انہوں نے اس کو پانی میں حل کیا اور پی لیا۔ ایک اندازہ کے مطابق سیدّ موسن شاہ رحمتہ اللہ علیہ  نے سندھ میں تقریباً ایک لاکھ لوگوں کو فیض سے نوازا اور آپ رحمتہ اللہ علیہ کی تعلیمات اور فیض کی بدولت سندھ سے بہت سی بدعات کا خاتمہ ہوا۔ صوبہ سندھ میں روہڑی اور گھوٹکی کے درمیان لوصاحبان کو آپ رحمتہ اللہ علیہ نے مرکز بنایا اور 1148ھ (1735) میں یہاں ایک شاندار مسجد تعمیر کروائی۔ اب یہ علاقہ’’ لوموسن شاہ‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ آپ کا وصال 8ذوالحجہ 1173ھ (21جولائی1760) بروز سوموار ہوا ،آپ  رحمتہ اللہ علیہ کا مزار آپؒ کی تعمیر کردہ مسجد کے قریب ہی مرجع خلائق ہے۔ 

 سید احمد و سید محمود شاہ  رحمتہ اللہ علیہ

اِن دونوں بھائیوں کے مزار ات خوشاب میں ’’دربارِشاہاں ‘‘کے نام سے مشہورہیں اور اِن کے بارے میں زیادہ تفصیلات دستیاب نہیں ہیں بس اتنا معلوم ہے کہ حضرت سخی سلطان باھوُ  رحمتہ اللہ علیہ کے مرید اور خلیفہ تھے۔ ایک روایت کے مطابق دونوں بھائی عالمگیر کے لشکر میں تھے۔ عالمگیر اور داراشکو ہ کے درمیان جب خوشاب میں جنگ ہوئی اور جنگ کے دوران داراشکوہ کا پلہ بھاری نظر آنے لگا تو اُس موقعہ پر عالمگیر نے دونوں بھائیوں سے دعا کی التجا کی۔ دونوں بھائیوں کی دعا سے عالمگیر کو فتح حاصل ہوئی مگر اس واقعہ کے بعد دونوں بھائی لشکر میں نہ رہ سکے۔ انہوں نے  خوشاب میں ہی رہائش اختیار کر لی اور وہیں ان کا انتقال ہوا۔

 خلیفہ ملّا معالی  رحمتہ اللہ علیہ

  ملاّ معالی  رحمتہ اللہ علیہ  قندھار بلوچستان کے علاقہ ڈھاڈر سے حضرت سخی سلطان باھوُ  رحمتہ اللہ علیہ کی زیارت کے لیے آئے اور بیعت اور تلقین حاصل کر کے خلافت سے سرفراز ہوئے۔آپ نے حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ  کی زندگی میں ہی صوبہ بلوچستان میں تلقین و ارشاد کا آغاز کر دیا تھا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ آپ رحمتہ اللہ علیہ  بلوچستان میں حضرت سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ  کے پہلے خلیفہ تھے۔آپ رحمتہ اللہ علیہ  کا مزارسبیّ  شہر کے قریب کرک میں ہے اور اخوند معالی کی زیارت کے نام سے معروف ہے۔

عالم شاہ  رحمتہ اللہ علیہ

عالم شاہ  رحمتہ اللہ علیہ  بھی ملاّ معالی رحمتہ اللہ علیہ  کے ہمراہ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ  کی ملاقات کو تشریف لائے اور فیض حاصل کیا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ  کا مزار مبارک قندھار (بلوچستان) کے نواح میں ہے۔

ملّا مصری  رحمتہ اللہ علیہ

ملاّ مصری  رحمتہ اللہ علیہ  بھی ملاّ معالی رحمتہ اللہ علیہ  کے ہمراہ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ کی زیارت کو تشریف لے گئے اور فیض حاصل کیا۔ آپ  رحمتہ اللہ علیہ کا مزار بلوچستان کے شہر ڈھاڈر میں ہے۔

شیخ جنید قریشی  رحمتہ اللہ علیہ

شیخ جنید قریشی رحمتہ اللہ علیہ  ملتان کے نواح میں دریائے راوی کے مشرقی گاؤں سردار پور کے رہنے والے تھے۔ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ  ایک مرتبہ سفر کے دوران گاؤں سردار پور پہنچے تو وہاںآپ رحمتہ اللہ علیہ  کی شیخ جنید قریشی رحمتہ اللہ علیہ   سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے آپ رحمتہ اللہ علیہ  کے اعزاز میں دعوت کی۔ شیخ جنید رحمتہ اللہ علیہ نے جنڈ کے درخت کا پھل جسے عرفِ عام میں سنگری کہتے ہیں، پکانے کے لیے درویشوں کے حوالے کیا۔ یہ پھل باریک اور لمبا ہوتا ہے، اس کا گودا سخت اور سویوں کی طرح ہوتا ہے۔ جب وہ پک گیا توسلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ  کے تصرف سے سویوں میں تبدیل ہوگیا۔ جب یہ سویاں حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ  کے پاس لائی گئیں تو آپ رحمتہ اللہ علیہ نے پاک مٹی اور پاک پانی طلب کیا اور اِن سویوں پر ڈال دیا تو وہ خاک اور پانی چینی اور گھی میں تبدیل ہوگئے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے شیخ جنید رحمتہ اللہ علیہ  کو فیض سے نوازا۔اُن  کا مزار مبارک اسی گائوں سردار پور میں واقع ہے۔

شیخ قالو  رحمتہ اللہ علیہ

شیخ کالو رحمتہ اللہ علیہ  شیخ جنید رحمتہ اللہ علیہ   کے فرزند تھے۔ طلبِ حق لے کر سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ  کی ملاقات کو آئے تو حضرت سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ   کے حجرہ سے ’’ھوُ‘‘کی آواز سنی۔ بڑے شوق اور اشتیاق سے حجرہ میں داخل ہوئے تو وہاں کسی کو موجود نہ پایا۔ پھر حجرہ سے باہر ’’ھوُ‘‘ کی آواز سنی تو فوراً دوڑ کر باہر نکلے تو وہاں بھی کوئی نہ تھا۔ پھر سے حجرہ کے اندر سے ’’ھوُ‘‘ کی آواز آئی تو دوڑتے ہوئے حجرہ کے اندر گئے مگر وہی پہلے والی کیفیت تھی، حجرہ خالی تھا۔ اسی طرح وہ کئی بار حجرہ کے اندر اور باہر آتے جاتے رہے۔ آخر کار شوقِ دیدار انتہا کو پہنچ گیا، بے قراری میں بے خود ہوگئے تو سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ نے آپ رحمتہ اللہ علیہ  کو دیدار کی نعمت عطا فرمائی۔ بیعت فرمایا بعد میں خلافت بھی عطا فرمائی ۔ اُن کا مزار اپنے والد شیخ جنید رحمتہ اللہ علیہ  کے مزار  کے ساتھ واقع ہے۔

حضرت لعل شاہ رحمتہ اللہ علیہ

حضرت لعل شاہ ہمدانی  رحمتہ اللہ علیہ   کا مزار شریف سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ  کے مزار کے عقب میں ہے۔ آپؒ شریف شاہ ہمدانی دندا شاہ بہاول کے فرزند ہیں ۔ سلطان باھوُ  رحمتہ اللہ علیہ  کے مزار مبارک پر ایک دفعہ آئے، سلطان باھو  رحمتہ اللہ علیہ نے مہربانی فرمائی تو وہیں کے ہو کر رہ گئے ۔ ساری زندگی مزار شریف پر ہی گزار دی، وہیں محبوب کے قدموں میں1328ھ کو جان دی اور وہیں دفن ہوئے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ   کے بارے میں میرے مرشد پاک سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو  رحمتہ اللہ علیہ نے لعل شاہ ہمدانی رحمتہ اللہ علیہ سے فرمایا تھا:

’’تو میرا معشوق ہے۔ میں زندگی بھر مزار سے تجھے دیکھتا رہوں گا اور مرنے کے بعد قبر بھی اپنے پاس بنواؤں گا اور قبر میں بھی تا قیامت تجھے دیکھتا رہوں گا۔‘‘

Click to rate this post!
[Total: 0 Average: 0]

Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں