Murshid

سلطان باھو کے مرشد

Spread the love

 حضرت سخی سلطان باھوؒ کے مرشد سید عبد الرحمٰن جیلانی دہلویؒ 

سیدّ عبد الرحمن جیلانی دہلویؒ کی سوانح حیات پر تحقیق

سیّد عبد الرحمن جیلانی دہلوی رحمتہ اللہ علیہ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ کے ظاہری مرشد ہیں۔ آپ غوث الاعظم حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ کی اولاد پاک میں سے ہیں۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کی ذات پر اَسرار کے وہی پردے پڑے ہوئے ہیں جو سروری قادری مشائخ کا خاصہ ہیں یعنی دنیا سے مخفی اور پوشیدہ رہنا۔صاحبِ مناقبِ سلطانی کے مطابق’’ سیدّ عبد الرحمن دہلوی رحمتہ اللہ علیہ سلطنتِ دہلی میں منصب دار تھے اور شاہی خزانہ کے امانت دار اور کلید دار تھے جس کے باعث محفوظ اور مناسب عمارت کے ساتھ کئی مسلح پہرہ داروں کا انتظام آپ رحمتہ اللہ علیہ کو حاصل تھا۔ آپ  رحمتہ اللہ علیہ جب مریدین سے ملاقات کے لیے تشریف لاتے تو چہرہ مبارک پر ایک نقاب ڈال لیتے تھے کیونکہ آپ رحمتہ اللہ علیہ کے چہرہ مبارک پر جو جلال و جمالِ الٰہی کے انوار تاباں تھے لوگ اِن کو دیکھنے کی تاب نہ رکھتے تھے۔ گویا آپ رحمتہ اللہ علیہ فقر کے ساتھ ساتھ اعلیٰ دنیاوی منصب پر بھی فائز تھے۔‘‘

مناقبِ سلطانی کی اس عبارت سے مندرجہ ذیل اُلجھنیں جنم لیتی ہیں:

1۔ چونکہ سیدّ عبدالرحمن جیلانی رحمتہ اللہ علیہ فقر کے اعلیٰ مراتب پر فائز تھے اس لیے ادنیٰ و اعلیٰ طالبانِ مولیٰ فقر کی نعمت کے لیے آپ رحمتہ اللہ علیہ تک پہنچتے ہوں گے اور آپ  رحمتہ اللہ علیہ کی صحبتِ عالیہ سے بھی مستفید ہوتے ہوں گے۔ ہندوستانی مصنفین کے مطابق لاکھوں لوگوں نے آپ رحمتہ اللہ علیہ سے فیض پایا۔ اگر آپ رحمتہ اللہ علیہ اعلیٰ شاہی منصب پر فائز ہوتے تو ایسا ممکن نہ ہو پاتا کیونکہ پھر آپ رحمتہ اللہ علیہ اپنے اس دنیاوی منصب کے فرائض کی ادائیگی میں زیادہ مصروف رہتے۔ پھر شاہی منصب دار کی حیثیت سے آپ  رحمتہ اللہ علیہ کا تذکرہ کسی مؤرخ نے نہیں کیا۔ ہندوستانی مصنفین نے بھی آپ رحمتہ اللہ علیہ کا تذکرہ صرف آپ رحمتہ اللہ علیہ کے مزار کے ضمن میں کیا ہے جو صرف چند سطروں پر مشتمل ہے۔ اگر آپ رحمتہ اللہ علیہ اعلیٰ دنیوی منصب پر فائز تھے اور شاہی خزانہ کے انچارج و نگران تھے تو شاہی خاندان کے ہر فرد اور دربار کے ہر ملازم کا آپ رحمتہ اللہ علیہ سے واسطہ رہتا ہوگا۔ شاہجہان اور اورنگزیب عالمگیر کے دور میں درجنوں مؤرخین تاریخ کا ایک ایک لمحہ قلمبند کرنے پر مامور تھے لیکن کسی نے بھی آپ رحمتہ اللہ علیہ کا تذکرہ نہیں کیا جو عجیب سی بات محسوس ہوتی ہے۔

2۔ جب سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ آپ  رحمتہ اللہ علیہ سے ملاقات کے بعد دہلی کی جامع مسجد میں تشریف لے گئے اور سب پر نگاہ فرمائی، سب پر اس کا اثر ہوا لیکن اورنگزیب عالمگیر اور کوتوال پر نہیں ہوا جس پر اورنگ زیب عالمگیر نے فیض کی درخواست کی اور آپ رحمتہ اللہ علیہ  نے ’’رسالہ اورنگ شاہی‘‘ تصنیف فرمایا۔ کیا اِس ملاقات میں اورنگزیب عالمگیر نے سلطان باھوُ  رحمتہ اللہ علیہسے یہ سوال نہیں کیا ہوگا آپ رحمتہ اللہ علیہ دہلی کیسے تشریف لائے؟ اورجواب میں آپ  رحمتہ اللہ علیہ نے سیدّ عبدالرحمن دہلوی رحمتہ اللہ علیہ کا تذکرہ فرمایا ہو گا، اگر سیّد عبد الرحمن دہلوی رحمتہ اللہ علیہ شاہی ملازم ہوتے تو اورنگزیب عالمگیر فوراً سیّد عبد الرحمن جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کو پہچان جاتا اور پھر سیدّ عبدالرحمن جیلانی دہلوی رحمتہ اللہ علیہ سے مسلسل ملاقات رکھتا اور آپ رحمتہ اللہ علیہ کو اپنے مشیروں میں شامل کرتا ۔

3۔ چہرے پر نقاب ڈالنا سروری قادری مشائخ کی خصوصیت نہیں ہے ۔ اس طرح سے انسان زیادہ مشہور اور معروف ہوتا ہے اور اس کی شہرت جلد پھیلتی ہے جبکہ سروری قادری شیخ گمنامی اور خمول کو پسند کرتا ہے اور حکمرانوں سے دور بھاگتا ہے اور عوام میں رہتا ہے ۔

4۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کا مزار مبارک پرانی دہلی میں لاہوری دروازہ سے کافی فاصلے پر باہر واقع ہے اور ساتھ ہی قدیم مسجد شاہ عبد الرحمن بھی ہے۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ آپ  رحمتہ اللہ علیہ قلعہ کے اندر نہیں بلکہ باہر عوام الناس میں رہے اور عوام الناس ہی آپ رحمتہ اللہ علیہسے فیضیاب ہوتے رہے۔

مندرجہ بالا دلائل کی روشنی میں ثابت یہی ہوتا ہے کہ صاحبِ مناقبِ سلطانی نے تحقیق نہیں کی اور نہ ہی اس غرض سے دہلی کا سفرکیا۔ جو روایت خاندان میں کسی سے سنی درج کر دی۔1934ء میں سیّد تجمل شاہ نقوی اچوی کی کتاب ’’باغِ سادات ‘‘ شائع ہوئی۔ 1947ء میں بارِ سوم شائع ہوا۔ اب یہ کتاب نایاب ہے، اس کتاب کا بارِ اوّل تو1934ء ہی میں شائع ہوا کیونکہ’’شریف التواریخ‘‘ جو 1934ء میں شائع ہوئی تھی، میں اِس کتاب کا حوالہ موجود ہے۔ اس کتاب کے صفحہ 61پر سیّد عبد الرحمن دہلوی  رحمتہ اللہ علیہ کا شجرہ نسب اس طرح درج کیا گیا ہے :
غوث الاعظم حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ
سیدّ عبد الرزاق جیلا نی رحمتہ اللہ علیہ
ابو صالح نصر
سیدّ یٰسین
سیدّ احمد شاہ
سیدّ عبد القادر
سیدّ عبد اللطیف
سیدّ عبد الرحمن عرف بھولو شاہ مدفن دہلی، پیشوا سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ

 یہ شجرہ نسب آگے اس طرح چلتا ہے:

پیر حبیب شاہ
پیر رجب شاہ
عبد اللہ
محمد شاہ
پیر اللہ بخش
پیر کریم شاہ
حضورشاہ
نور شاہ
زمان شاہ

اس نسب نامہ پر سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ سیدّ عبد الرحمن دہلوی رحمتہ اللہ علیہ کا لقب کبھی بھی بھولو شاہ نہیں رہا۔ بھولو شاہ  رحمتہ اللہ علیہ دہلی میں1200ھ میں ایک اور قادری بزرگ گزرے ہیں جن کا مزار سیدّ عبد الرحمن دہلوی رحمتہ اللہ علیہ کے مزار سے دو یا تین کلو میٹر کے فاصلے پر ہے اور ان کا تذکرہ ہندوستان کی موجودہ اور قدیم کتب میں ملتا ہے۔ ان کو تمام مصنفین نے بھولو شاہ رحمتہ اللہ علیہ مگر غلام یحییٰ انجم نے تاریخ مشائخِ قادریہ (جلد سوم )میں شاہ بہلن رحمتہ اللہ علیہ عرف بھولو شاہ لکھا ہے۔بھولو شاہ  رحمتہ اللہ علیہ ایک مجذوب قادری بزرگ تھے اور پنجاب سے ہجرت کرکے دہلی تشریف لے گئے تھے۔ سلسلہ قادریہ میں آپ عبد الحمید کے مرید و خلیفہ تھے ۔ ’’واقعات دار الحکومت دہلی‘‘ (جلد دوم) میں ہے:

بھولو شاہ رحمتہ اللہ علیہ کا مزار1201ھ۔: کابلی دروازہ تو اب نہیں رہا مگر اس کی جگہ سب کو معلوم ہے، اسی کے پاس آپ رحمتہ اللہ علیہ کا مزار ہے۔ آپ سلسلہ قادریہ کے بزرگ تھے۔ 1201ھ میں انتقال کیا، مست روز الست تاریخِ وفات ہے۔ آپ  رحمتہ اللہ علیہ کے مزار کے برابر ہی آپ رحمتہ اللہ علیہ کے خاص مرید شاہ محمد حفیظ صاحب کا مزار ہے جن کے برابر اِن کے صاحبزادے شاہ غلام محمد مدفون ہیں۔ 19محرم کو بھولو شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ کا عرس ہو تا ہے۔ (صفحہ473)

محمد عالم شاہ فریدی کی کتاب ’’مزاراتِ اولیا دہلی‘‘ اوّلین کتاب ہے جو1927ء میں دہلی کے مزارات کے بارے میں شائع ہوئی۔ اس کا دوسرا ایڈیشن 1930میں طبع ہوا۔ 1947ء میں مصنف اور پبلیشر پاکستان ہجرت کر آئے۔ 2006ء میں ڈاکٹر حفیظ الرحمن صدیقی نے اضافہ و تصحیح کے ساتھ اسے دوبارہ دہلی سے شائع کیا ہے۔ اس میںدرج ہے:

بھولو شاہ رحمتہ اللہ علیہ  1789ء نزد کابلی دروازہ پرانی دہلی۔: آپ رحمتہ اللہ علیہ پنجاب کے رہنے والے تھے۔ سلسلہ قادریہ رزاقیہ میں شاہ عبدالحمید رحمتہ اللہ علیہ کے خلیفہ ہیں اور مولانا فخرالدین چشتی و شاہ نانو کے صحبت یافتہ ہیں۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ مجذوب سالک تھے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے20محرم 1204ھ بمطابق 1789ء کو بعہد شاہ عالم ثانی انتقال فرمایا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کا مزار کابلی دروازہ کے باہر ہے۔ (صفحہ157۔158)

’’راہنما ئے مزاراتِ دہلی‘‘ میں ہے:

آپ (حضرت بھولو شاہ  رحمتہ اللہ علیہ ) سلسلہ قادریہ رزاقیہ میں حضرت شاہ عبد الحمید رحمتہ اللہ علیہ کے مرید و خلیفہ ہیں۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کا اصلی وطن پنجاب تھا اور حضرت شیخ نانو و حضرت شاہ فخر الدین رحمتہ اللہ علیہم کے صحبت یافتہ تھے۔ 20محرم 1204ھ میں وفات پائی۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کا مزار مٹھائی پل پر داہنی طرف نیچے اتر کر ریلوے لائن کے پاس ہے (لاہوری گیٹ4۔ پرانی دہلی6)، قریب میں مسجد بنی ہوئی ہے۔ حضرت شاہ حفیظ الرحمن رحمتہ اللہ علیہ حضرت شاہ بھولو رحمتہ اللہ علیہ کے خاص مریدوں میں تھے۔ آپ  رحمتہ اللہ علیہ نے اکبر شاہ ثانی کے دورِ حکومت میں30ذیقعد 1236ھ میں وفات پائی اور اپنے مرشد کے پہلو میں مدفون ہوئے۔ حضرت شاہ غلام محمد آپ رحمتہ اللہ علیہ کے فرزند اور خلیفہ تھے، ان کا مزار اپنے مرشد والد کی پائنتی کی طرف ہے۔ (صفحہ286 ۔284)

غلام یحییٰ انجم ’’تاریخ مشائخِ قادریہ‘‘ (جلد سوم) میں رقمطراز ہیں:

حضرت شاہ بہلن عرف بھولو شاہ رحمتہ اللہ علیہ ۔: آپ کا تعلق سلسلہ قادریہ رزاقیہ سے ہے۔ اس سلسلہ میں آپ  رحمتہ اللہ علیہ شاہ عبد الحمید رحمتہ اللہ علیہکے مرید و خلیفہ تھے۔ مولانا فخر الدین چشتی  رحمتہ اللہ علیہ سے بھی فیض حاصل کیا تھا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کی کیفیت مجذوب سالک کی سی تھی۔ 19محرم  1204ھ (1789ئ) کو وصال ہوا۔مست روزِ الست تاریخ سنہ وفات ہے۔ دہلی میں کابلی دروازہ سے متصل ’’تکیہ بھولو شاہ‘‘ میں دفن ہوئے۔ مزار ِمقدس پر موسمِ بہار میں بسنت کا میلہ بڑی دھوم دھام سے آپ  رحمتہ اللہ علیہ کے عقیدت مند مناتے ہیں۔ (صفحہ291)

ان تمام تحریروں سے واضح ہوتا ہے کہ صاحب ِ باغِ سادات نے سیّد عبد الرحمن دہلوی جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کا جو شجرہ نسب بھولو شاہ کے نام سے درج کیا ہے وہ سیّد عبد الرحمن دہلوی  رحمتہ اللہ علیہ کا نہیں بلکہ بھولو شاہ  رحمتہ اللہ علیہ کا ہے  جن کا تعلق پنجاب سے تھا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ پنجاب سے ہجرت کرکے دہلی تشریف لے گئے اور شاہ عبد الحمید رحمتہ اللہ علیہ سے قادریہ سلسلہ کا فیض حاصل کیا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کی اولاد پنجاب میں ہی رہی اس لیے آپ  رحمتہ اللہ علیہ کے خلیفہ شاہ محمد حفیظ صاحب اور اس کے بعد اُن کے صاحبزادے شاہ غلام محمد صاحب سجادہ نشین ہوئے جن کے مزارات حضرت بھولو شاہ صاحب  رحمتہ اللہ علیہ کے ساتھ ہی ہیں ۔سیدّ عبد الرحمن جیلانی دہلوی رحمتہ اللہ علیہ کا مزار مبارک ان کے مزار سے تقریباً دو کلومیٹر کے فاصلے پر لاہور ی گیٹ صدر بازار ریلوے سٹیشن ریلوے کالونی مسلم وقف بورڈ کوارٹر زپرانی دہلی6میں واقع ہے۔

ہندو ستانی کتب میں سید عبد الرحمٰن دہلویؒ کا تذکرہ

’’مزاراتِ اولیا دہلی‘‘ میں ہے:
آپ  رحمتہ اللہ علیہ  بڑے مستند اولیا میں سے ہیں۔ قادریہ خاندان میں سیدّ عبد الجلیل  رحمتہ اللہ علیہکے مرید و خلیفہ ہیں اور سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ پنجاب کے مشہور بزرگ کے پیرو مرشد ہیں۔ صاحبِ تصرف و کرامات تھے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کا مزار ریلوے سٹیشن صدر بازار کے مسافر خانہ کے پیچھے ایک احاطہ میں ہے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کا انتقال آخر زمانہ شاہجہان یا شروع زمانہ عالمگیر میں ہوا، سنِ وفات معلوم نہیں۔ (طبع اوّل1927ئ)

’’راہنمائے مقاماتِ مقدس دارالحکومت دہلی‘‘ میں درگاہ سیدّ عبد الرحمن دہلوی جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کے بارے میں درج ہے:
یہ درگاہ متصل صدر سٹیشن دہلی ہے۔ آپ  رحمتہ اللہ علیہ اولادِ سیدّنا عبد القادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ سے ہیں۔ اعظم اولیا اللہ ہوئے ہیں۔ سلطان باھوُ  رحمتہ اللہ علیہ جو بڑے اولیا اللہ پنجاب میں مشہور ہیں آپ رحمتہ اللہ علیہ کے خلیفہ اعظم تھے۔ یہ آپ رحمتہ اللہ علیہکا تصرفِ ولایت ہے کہ گورنمنٹ نے آپ رحمتہ اللہ علیہ کی درگاہ کو سڑک اور ریل سے بچایا بلکہ اس کا احاطہ بہت پختہ ریختہ کا اور جنگلہ آ  ہنی اور درگاہ شریف میں جانے کا راستہ بنوا دیا ہے۔ (طبع دہلی1914ئ)

ڈاکٹر غلام یحییٰ انجم ’’تاریخ مشائخِ قادریہ‘‘ (جلد سوم) میں تحریر کرتے ہیں:
حضرت سیّدنا شیخ عبد الرحمن گیلانی رحمتہ اللہ علیہ کا شمار دہلی کے اہم مشائخ میں ہوتا ہے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کا نسبی رشتہ سیدّنا شیخ عبد القادر جیلانی  رحمتہ اللہ علیہ کی اولاد سے ہے۔ تقویٰ ، تدین اور زہدو ریاضت میں ممتاز تھے، کشف و کرامات میں آپ  رحمتہ اللہ علیہ کا پایہ بہت بلند تھا۔ حضرت سیدّ عبد الرحمن گیلانی رحمتہ اللہ علیہ کو سلسلہ قادریہ کی دولت سیّد عبد الجلیلرحمتہ اللہ علیہ سے حاصل ہوئی تھی اس سلسلہ میں آپ رحمتہ اللہ علیہ انہی کے مرید و خلیفہ تھے۔ دہلی اور اس کے اطراف و نواح میں آپ رحمتہ اللہ علیہ کی ذات سے سلسلہ قادریہ کو بے حد فروغ حاصل ہوا۔ بے شمار بندگانِ خدا آپ رحمتہ اللہ علیہ  کے دامنِ ارادت سے وابستہ ہوئے اور کتنوں کو اجازت و خلافت کا منصب عطا ہوا۔ مشہور بزرگ حضرت سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ آپ رحمتہ اللہ علیہ ہی کے خلیفہ تھے۔ (طبع دہلی2006ئ)

’’راہنمائے مزارات دہلی‘‘ میں آپؒ کے مزار کے ضمن میں تذکرہ ہے:
حضرت عبد الرحمن گیلانی رحمتہ اللہ علیہ پنجاب کے مشہور بزرگ حضرت سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ کے پیرو مرشد ہیں۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ صاحبِ تصرف و کرامات اور خاندانِ قادریہ کے مستند بزرگ تھے۔ (طبع دہلی2007)

بیلی(Beale) نے اورینٹل بائیوگرافیکل ڈکشنر ی(Oriental Biographical Dictionary) میں تحریر کیا ہے کہ سیّد عبد الرحمن گیلانی  رحمتہ اللہ علیہ وہی ہیں جو عبد العزیز نقشبندی کے فرزند تھے اور جن کی بیٹی کی شادی داراشکوہ کے بیٹے سلیمان شکوہ سے ہوئی۔ 

ڈاکٹر راما کرشناکا بھی یہی موقف ہے لیکن یہ بات قیاس لگتی ہے کیونکہ ایک تو سیدّ عبد الرحمن جیلانی رحمتہ اللہ علیہ نسبی جیلانی سادات ہیں اور دوسرے آپ سلسلہ فقر میں پشت ہا پشت سے قادری سلسلہ سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ اُن کے والد نقشبندی سلسلہ سے ہوں۔ یہ بات بھی حتمی ہے کہ آپ  رحمتہ اللہ علیہ ہی ہند تشریف لائے تھے آپ  رحمتہ اللہ علیہ کے والد نہیں آئے تھے۔ بیلی (Beale) کی اس رائے کو کسی نے بھی مستند نہیں سمجھا اور نہ ہی یہ سلسلہ سروری قادری یا قادری سلسلہ میں کوئی اہمیت رکھتی ہے۔ قدیم اور جدید مصنفین میں سے کسی نے اس کا تذکرہ تک نہیں کیا۔

سیدّ عبد الرحمن جیلانی دہلوی رحمتہ اللہ علیہ کے بارے میں ہندوستانی اور پاکستانی مصنفین کی تمام تحقیق ہم نے واضح طور پر بیان کر دی ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہندوستانی مصنفین وہی درج کرتے چلے آ رہے ہیں جو 1914ء میں آثارِ دہلی یا 1927ء میں مزاراتِ اولیا دہلی میں شائع ہو چکا ہے اور پاکستانی مصنف وہی درج کرتے چلے آرہے ہیں جو مناقبِ سلطانی میں شائع ہو چکا ہے۔ تحقیق کرنا تو دور کی بات ہے کسی نے آپ  رحمتہ اللہ علیہ کے مزار مبارک تک جانے کی کوشش تک نہیں کی۔

سیدّ عبدالرحمن جیلانی دہلوی  رحمتہ اللہ علیہ کے متعلق حقائق سے پردہ اُٹھانے کے لیے ضرورت اس امر کی تھی کہ مزید تحقیق کی جاتی تاکہ سیدّ عبدالرحمن جیلانی دہلوی  رحمتہ اللہ علیہ کی درست سوانحِ حیات مرتب کی جاسکے۔ اس سلسلہ میں سب سے مشکل کام ہندوستان آنے جانے اور وہاں تحقیق کرنے کا تھا۔نومبر2008ء میں فقیر نے محمد اسد خان سروری قادری سے اس سلسلے میں ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ میرے ایک دوست محمد عامر الیاس ہیں جن کی لاہور میں آٹو ورکشاپ ہے، اُن کی شادی پرانی دہلی میں ہوئی ہے اور اُن کے برادر ِ نسبتی مجیب الرحمن اکثر پاکستان آتے جاتے رہتے ہیں اگر ان کے ذریعے کوشش کی جائے تو شاید کوئی حل نکل آئے۔ مجیب الرحمن سے محمد اسد خان نے فون پر بات کی تو انہوں نے حامی بھر لی۔ سب سے پہلا مرحلہ سیّد عبد الرحمن جیلانی دہلوی رحمتہ اللہ علیہ کے دربار پاک کی تلاش کا تھا کیونکہ دہلی اب بہت پھیل چکا ہے۔ پہلے تو مجیب الرحمن نے دہلی کے مزارات کے متعلق کچھ کتب بھجوائیں اور انہیں مزار کا محل وقوع سمجھایا گیا لیکن اس کے با وجود دربار کی تلاش میں دو ماہ کا عرصہ لگ گیا۔ مزار مبارک کا پتہ چلا تو معلوم ہوا کہ اس علاقہ میں تو داخلہ مشکل ہے۔ غیر مسلک کے لوگ آباد ہیں اور1947ء سے قبضہ گروپ دربار اور اس سے ملحقہ زمین پر قبضہ در قبضہ کرتا چلا آرہا ہے۔ پھر وہ اپنی والدہ کو ساتھ لے کر گئے اور مزار مبارک سے ملحقہ مسجد شاہ عبد الرحمن میں چلے گئے۔ وہاں اُن کی ملاقات سنی سیدّ سلیم الزماں ہاشمی ولد حافظ قاری سیدّ احسان اللہ ہاشمی ولد حکیم سیدّ عبدالرحمن ہاشمی سے ہوئی جو کہ مسجد شاہ عبدالرحمن کی امامت اور دربار کی دیکھ بھال اور خدمت رضاکارانہ طور پر سر انجام دیتے تھے۔ تفصیلاً مدعا اُن کے گوش گزار کیا گیا اور موبائل پرمحمد اسد خان کی بات بھی کروائی گئی۔ انہوں نے یہ گلہ کیا کہ کوئی یہاں آکر حالات کی تحقیق نہیں کرتا اور لوگ گھروں میں بیٹھ کر پرانی کتابیں دیکھ کر کتابیں لکھ دیتے ہیں۔ اُن کو تازہ ترین کتاب ’’راہنمائے مزاراتِ دہلی ‘‘دکھائی گئی جو2007ء میں طبع ہوئی تھی تو انہوں نے بتایا کہ کتاب میں سیدّ عبدالرحمن دہلوی جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کی تربت مبارک کی جو تصویر دی گئی ہے وہ چالیس سال پرانی ہے۔ خیر انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ اپنی خاندانی یاداشتیں اور کاغذات جو عربی یا فارسی میں ہیں، تلاش کریں گے اور پھر کچھ تحر یر کرکے دے سکیں گے۔ اسی دوران ایک سال کا عرصہ گزر گیا۔ انہوں نے موبائل پر تو محمد اسد خان کو سب کچھ بتا دیا تھا لیکن ابھی انہوں نے کچھ بھی تحریر کرنا شروع نہیں کیا تھا کہ2009ء میں اُن پر فالج کا شدید حملہ ہوا اور اُن کے جسم کے دائیں حصہ نے کام کرنا بند کر دیا۔ اس دوران اُن کا علاج وغیرہ ہوتا رہا اور ہم لوگ اُن کے تندرست ہونے کا انتظار کرتے رہے۔2010ء کے اوائل میں انہوں نے مجیب الرحمن کو کہا کہ لگتا ہے میرا آخری وقت ہے میں نے جو کچھ تم لوگوں کو بتایا ہے خود لکھ لو۔ مجیب الرحمن کا مسئلہ یہ تھا کہ وہ اردو نہیں لکھ سکتے تھے صرف ہندی لکھ سکتے تھے۔ آخر فیصلہ یہ ہوا کہ تمام معلومات کو اردو میں کمپوز کروالیا جائے۔ مجیب الرحمن نے تمام معلومات کو ہندی میں لکھا اور فروری2010ء میں پاکستان تشریف لے آئے۔ یہاں پر تمام معلومات کو اردو میں ٹائپ کروایا گیا اور سیدّ عبد الرحمن دہلوی رحمتہ اللہ علیہ کے مزار مبارک کے لیے خصوصی طور پر تیار کروائی گئی چادر جس پر اسمِ اللہ ذات کندہ تھا، ان کے حوالہ کی گئی۔ مجیب الرحمن 21فروری2010ء کو یہ دونوں اشیا لے کر انڈیا چلے گئے اور 23 فروری2010ء کو سیدّ سلیم الزمان ہاشمی کے پاس پہنچے۔ سیدّ سلیم الزمان ہاشمی صاحب کو بڑی مشکل سے مزار تک لایا گیا۔ انہوں نے اپنے دستِ مبارک سے بڑی مشکل اور تکلیف سے دستخط/نام لکھ کر یہ نسخہ اس وصیت کے ساتھ مجیب الرحمن کے حوالہ کیا کہ تحقیق کے لیے جو طلب کر ے دے دینا۔25فروری2010ء کو سیدّ سلیم الزمان ہاشمی صاحب کا انتقال ہو گیا۔ مجیب الرحمن نے نسخہ میں یہ لکھا ہے کہ شاید آخری دودِن وہ یہ نسخہ میرے حوالہ کرنے کے لیے ہی زندہ تھے۔ 13مئی 2010ء کو مجیب الرحمن لاہور تشریف لائے اور سیدّ سلیم الزمان ہاشمی صاحب کا دستخط شدہ نسخہ گواہان کی موجودگی میں محمد اسد خان صاحب کے حوالے کیا اور اس نسخہ پر ہی وہ تمام حالات و واقعات جو اس نسخہ کو ترتیب دینے کے دوران پیش آئے تھے گواہان کے سامنے ہندی میں قلمبند کیے جن پر مجیب الرحمن نے تصدیق کے طور پر دستخط کیے اور اُن کی راہنمائی میں ہندی کی اس عبارت کا اردو ترجمہ بھی قلمبند کیا گیا۔ اب یہ نسخہ محمد اسد خان سروری قادری صاحب کے پاس محفوظ ہے۔اس نسخہ کے مطابق سیّد عبدالرحمن جیلانی دہلوی  رحمتہ اللہ علیہ کی سوانحِ حیات درج کی جارہی ہے۔

سوانحِ حیات سید عبد الرحمٰن دہلوی رحمتہ اللہ علیہ

سلسلہ نسب

سیدّ عبد الرحمن جیلانی دہلوی رحمتہ اللہ علیہ غوث الاعظم حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ کی اولاد پاک سے ہیں۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کا شجرہ نسب اس طرح حضرت غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ سے جا ملتا ہے:

سیدّ عبد الرحمن جیلانی دہلوی بن سیدّ عبد القادر بن سیدّ شرف الدین بن سیدّ احمد بن سیدّ علائو الدین ثانی بن سیدّ شہاب الدین ثانی بن سیدّ شرف الدین قاسم بن سیدّ محی الدین یحییٰ بن سیدّ بدرالدین حسین بن علائو الدین بن شمس الدین بن سیف الدین یحییٰ بن ظہیر الدین مسعود بن ابی نصر محمدبن ابو صالح نصر بن سیدّنا عبد الرزاق جیلانی رضی اللہ عنہٗ بن غوث الاعظم حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ ۔ 

ولادت سیّد عبدالرحمن جیلانی دہلویؒ

سیدّ عبد الرحمن جیلانی رحمتہ اللہ علیہ شام کے شہر حماہ میں 1024ھ (1615 ئ) میں پیدا ہوئے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کے والد سیدّ عبد القادر رحمتہ اللہ علیہ درویش منش انسان اور ولیٔ کامل تھے، ابتدائی تعلیم و تربیت اپنے والد سے ہی حاصل کی۔ آپ  رحمتہ اللہ علیہ 35سال کی عمر میں حماہ سے بغداد تشریف لائے اور جدِ امجد غوث الاعظم حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ کے مزار شریف پر معتکف ہوگئے۔ تین سال تک آپ  رحمتہ اللہ علیہ مزار شریف پر معتکف رہے۔ تین سال بعد آپ  رحمتہ اللہ علیہ کو غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ کی جانب سے باطنی حکم ملا کہ ہندوستان میں سیدّ عبد الجلیل رحمتہ اللہ علیہ کے پاس چلے جائو۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ 38سال کی عمر میں شاہ جہان کے دورِ حکومت میں13ذیقعد 1062ھ (15اکتوبر 1652ئ) بروز منگل براستہ ایران اور افغانستان ہندوستان تشریف لائے اور سیدّ عبد الجلیل رحمتہ اللہ علیہ کے دستِ مبارک پر 10 ذوالحجہ 1062ھ (10نومبر1652ئ) کو بیعت ہوئے جو برہان پور انڈیا، عادل پور سندھ یا دریائے سندھ کے کنارے کسی جگہ پر مقیم تھے، درست معلوم نہیں ہے۔ سیدّ عبد الجلیل رحمتہ اللہ علیہ کے حکم پر آپ  9صفر 1063ھ (8جنوری 1653ئ)  بروز بدھ دہلی تشریف لائے اور اب جہاں آپ  رحمتہ اللہ علیہ کا مزار مبارک ہے، وہاں اپنا مکان اور خانقاہ تعمیر کرائی اور ارد گرد کی زمین خرید کر سالکین کے لیے حجرے بنوائے اور ایک مسجد تعمیر کروائی جو اب بھی مسجدشاہ عبد الرحمن کے نام سے موجود ہے۔ موجودہ صدر سٹیشن پرانی دہلی اور مسلم وقف بورڈ کوارٹرز آپ رحمتہ اللہ علیہ کی زمین پر بنائے گئے ہیں۔

تلقین و ارشاد

سیدّ عبد الرحمن جیلانی  رحمتہ اللہ علیہ نے خمول و گمنامی کی زندگی گزاری۔ شہرت سے آپ رحمتہ اللہ علیہ کو سخت نفرت تھی۔ کبھی شاہی دربار اور درباری حکام سے ملاقات کے لیے نہیں گئے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ صاحبِ تصرف قادری فقیر تھے۔ دہلی اور اس کے گردو نواح میں لاکھوں لوگوں نے آپ رحمتہ اللہ علیہ سے فیض پایا اور لاکھوں لوگ آپ رحمتہ اللہ علیہ کے دامنِ ارادت سے وابستہ ہوئے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ قائم مقام فقیر تھے یعنی وہ فقیر جو ایک ہی جگہ مقیم رہ کر فیض تقسیم کرتا ہے۔ اس بات کے کوئی شواہد نہیں ہیں کہ دہلی آمد کے بعد آپ رحمتہ اللہ علیہ کبھی دہلی سے باہر تشریف لے گئے ہوں۔

ایک روایت یہ بھی ہے کہ آپ رحمتہ اللہ علیہ کی دہلی آمد کے دومقاصد تھے، ایک تو سلسلہ کو ظاہری طور پر سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ کے حوالہ کرنا تھا کیونکہ اس سلسلہ نے قیامت تک جاری رہنا تھا اور سلطان العارفین رحمتہ اللہ علیہ سے اسے عروج حاصل ہونا تھا۔ دوسرے اورنگزیب عالمگیر کی باطنی امداد کرنا تھا تاکہ اورنگزیب عالمگیر کو برسرِاقتدار لاکر شریعتِ محمدیؐ کو زندہ اور قائم کیا جا سکے۔ عالمگیر کو فتوحات دلانے اور اس دور میں رائج بدعات کو ختم کرنے کے پیچھے آپ رحمتہ اللہ علیہ ہی کی باطنی قوت کار فرما تھی۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کے وصال کے بعد یہ فریضہ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ کے حوالے ہوا اور اورنگزیب عالمگیر نے مغلیہ خاندان کی سب سے بڑی سلطنت قائم کی اور شریعتِ محمدیؐ کو زندہ و قائم کیا۔

حسن وجمال

سیدّ عبد الرحمن جیلانی دہلوی  رحمتہ اللہ علیہ کا رنگ گندمی، قد میانہ اور آنکھیں بہت خوبصورت تھیں۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کے چہرہ مبارک پر اتنا نور ہوتا تھا کہ طالبانِ مولیٰ کے لیے زیادہ دیر آپ رحمتہ اللہ علیہ کے چہرہ مبارک پر نگاہیں جمائے رکھنا ممکن نہ تھا۔

ازواج و اولاد

سیدّ عبد الرحمن جیلانی  رحمتہ اللہ علیہ نے6جمادی الثانی  1065ھ (12۔اپریل1655) بروز سوموار دہلی میں جیلانی سادات میں سیدّہ زاہدہ خاتون سے نکاح فرمایا۔ 1070ھ (1660) میں آپ رحمتہ اللہ علیہ کے ہاں پہلے فرزند سیدّ تاج العارفین کی ولادت ہوئی جن کا 1075ھ (1665) میں مرضِ اسہال سے وصال ہو گیا۔ 1082ھ (1671) میں آپ  رحمتہ اللہ علیہ  کے ہاں دوسرے فرزند سیدّ عبد العزیز رحمتہ اللہ علیہ   کی ولادت ہوئی۔ سیدّ عبد الرحمن دہلوی رحمتہ اللہ علیہ کے وصال کے بعد آپ رحمتہ اللہ علیہ کی زوجہ محترمہ سیدّہ زاہدہ خاتون رحمتہ اللہ علیہا 10سال حیات رہیں، اُن کا وصال 1098ھ (1687) میں ہوا۔

سیدّ عبدالرحمن جیلانیؒ کا سلسلہ فقر

سیدّ عبد الرحمن جیلانی  رحمتہ اللہ علیہ کا سلسلہ فقر حضرت غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ تک اس طرح پہنچتا ہے:

آپ مرید تھے سیدّ عبد الجلیل رحمتہ اللہ علیہ کے، وہ مرید تھے سیدّ عبد البقا  رحمتہ اللہ علیہ کے، وہ مرید تھے سیدّ عبدالستار رحمتہ اللہ علیہ کے، وہ مرید تھے سیدّ عبدالفتاح رحمتہ اللہ علیہ کے، وہ مرید تھے سیدّ نجم الدین برہان پور والے کے، وہ مرید تھے سیدّ محمد صادق یحییٰ جیلانی رحمتہ اللہ علیہ  کے، وہ مرید تھے سیدّ عبد الجبار بن ابو صالح نصر کے، وہ مرید تھے سیدّ عبد الرزاق جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کے اور وہ مرید تھے سیدّنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبد القادر جیلانی  رضی اللہ عنہٗ کے۔

خلفا

سیدّ عبد الرحمن جیلانی  رحمتہ اللہ علیہ کے خلیفہ اکبر سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ  رحمتہ اللہ علیہ ہیں۔ خلفا اصغر میں شاہ حبیب اللہ قادری  رحمتہ اللہ علیہ ہیں اور دوسرے خلیفہ اصغر سیدّ محمد صدیق  رحمتہ اللہ علیہ ہیں جو پہلے سجادہ نشین ہوئے اور لاولد فوت ہوئے۔

 

وصال مبارک

دورِ عالمگیری میں 21 رمضان المبارک 1088ھ (16نومبر1677ئ) شب ِ جمعہ وصال فرمایا اور اپنے حجرہ میں مدفون ہوئے۔

 

عرس مبارک

آپ  رحمتہ اللہ علیہ کا عرس مبارک 21 رمضان المبارک کو ایک عرصہ تک بڑی شان و شوکت سے منعقد ہوتا رہا ہے اور اب بھی عقیدت مند ہر سال 21رمضان المبارک کو آپ  رحمتہ اللہ علیہ کا عرس مبارک مناتے ہیں۔

 

مزار مبارک 

آپ رحمتہ اللہ علیہ جس حجرہ میں رہائش پذیر تھے وصال کے بعد آپ رحمتہ اللہ علیہ کو وہیں دفن کیا گیا ۔آپ رحمتہ اللہ علیہ کے خلیفہ سیدّ محمد صدیق دربار کے متولی اور سجادہ نشین ہوئے لیکن دورِ عالمگیری میں ہی وہ لاولد فوت ہوگئے۔ اُن کا کب وصال ہوا اور تربت مبارک کہاں ہے کچھ پتہ نہیں چل سکا۔ برطانوی دورِ حکومت میں جب اس علاقہ سے سڑک اور ریل کی پٹری گزاری گئی اور صدر ریلوے سٹیشن بنایا گیا تو آپ  رحمتہ اللہ علیہ کے مزار کو محفوظ بنانے کے لیے پٹری کا رخ بدلا گیا اور ایک احاطہ بنا کر آپ  رحمتہ اللہ علیہ کے دربار کو اس نظام سے علیحدہ رکھا گیا۔

1947ء میں تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان سے ہجرت کرکے آنے والے آہستہ آہستہ آپ رحمتہ اللہ علیہ کی زمین پر مسلم وقف بورڈ کے عملہ کی ملی بھگت سے قابض ہوتے چلے گئے۔ یوں تو اُن کی دست برد سے کوئی بھی مزار اور خانقاہ محفوظ نہ رہی لیکن آپ رحمتہ اللہ علیہ کے مزار کے ارد گرد کی وسیع زمین بھی اُن لوگوں کے قبضہ میں چلی گئی۔اب ایک مختصر کمرہ میں آپ رحمتہ اللہ علیہ کا مزار اور اس کے ساتھ مسجد شاہ عبد الرحمن موجود ہے باقی تمام زمین ناجائز قابضین کے قبضہ میں جا چکی ہے۔ مزار سیدّ عبد الرحمن دہلوی رحمتہ اللہ علیہ کی تمام زمین پر اور دیگر مزارات اور مسلم املاک پر یہ لوگ کس طرح قابض ہوئے اس کا تذکرہ ہندوستانی کتب ہی سے کرتے ہیں۔

حضرت فرید الدین شاہ بلند شہر یو۔پی انڈیا’’ راہنمائے مزاراتِ دہلی ‘‘میں تحریر کرتے ہیں:
افسوس ہے کہ تقسیمِ وطن کے مضر اثرات سے عبادت گاہوں، خانقاہوں کا تقدس بھی محفوظ نہ رہ سکا۔ مسلمان کثیر تعداد میں پاکستان چلے گئے۔ ہزاروں درگاہوں اور موقوفہ جائیدادوں پر غاصبانہ قبضے ہوگئے اور اُن کی شکل و صورت بھی تبدیل کر دی گئی۔ رفتہ رفتہ ان کی صحیح تاریخ اور نام و نشان کو بھی اہلِ دنیا نے فراموش کر دیا۔ (راہنمائے مزاراتِ دہلی، طبع 2007ء صفحہ 7)

ڈاکٹر محمد حفیظ الرحمن صدیقی’’ مزارات ِ اولیا دہلی‘‘ میں بیان کرتے ہیں:
1947ء کے بعد دہلی میں جو افراتفری مچی تو زیادہ تر مسلمان پاکستان چلے گئے اور دہلی پر پاکستان سے آئے ہوئے پناہ گزینوں کا قبضہ ہو گیا۔ مسلمانوں کے مذہبی مقامات کا بہت برا حال ہوا اور اُن کا کوئی پرُسانِ حال نہ رہا۔ درگاہ قدم شریف ، درگاہ شاہِ مرداں اور چراغِ دہلی اور قطب الدین بختیار کاکی  رحمتہ اللہ علیہ کی درگاہ کی فصیل پر پاکستان سے آئے ہوئے پناہ گزینوں نے قبضہ کر لیا۔ کسی طرح سے حکومت نے اِن درگاہوں کے خاص مقام کو خالی کروایا، باقی پوری فصیل پر آج بھی اُن ہی کا قبضہ ہے۔ باقی درگاہوں پر خود مسلمانوں نے قبضہ کرکے اپنے گھر بنا لیے ہیں۔ ان درگاہوں کی چار دیواریاں جو بہت وسیع تھیں اور اُن میں بھی بڑے بڑے اولیاکرام دفن تھے ان سبھی مزاروں پر لوگوں نے قبضہ کرکے گھر، مکان اور دکانیں بنا لی ہیں۔ آج بھی شیخ صلاح الدین رحمتہ اللہ علیہ کی درگاہ جو ساوتری نگر، شیخ سرائے میں ہے اس میں دکان چل رہی ہے۔ اسی جگہ ان کے خاندان کے ایک بزرگ کی درگاہ میں بڑھئی کا کام چل رہا ہے۔درگاہ شیخ سلیمان دہلوی  رحمتہ اللہ علیہ جوظفر محل سے پورب نندو فروٹ والے کے مکان کے سامنے ہے، اس میں دکان کھول دی گئی ہے اور قبر کا تعویز اکھاڑ دیا گیا ہے۔ اس کے قریب دو اور مزاروں پر گنبد تعمیر ہیں جو کسی ہندو کے قبضہ میں ہیں اور رہائش کے طور پر استعمال ہو رہے ہیں۔ اسی طرح حضرت نظام الدین اولیا  رحمتہ اللہ علیہ کی درگاہ کے چاروں طرف آرام فرمارہے صوفیا کرام کے مزاروں پر مکان تعمیر ہوگئے ہیں۔

ان مزاروں اور درگاہوں کی اپنی الگ الگ چار دیواری اور وسیع زمین تھی جو قبر ستان کے طور پر استعمال کے لیے تھی۔ ان ساری زمینوں پر حکومت نے قبضہ کر لیا اور دہلی کے زیادہ تر مزاروں اور قبرستان کی زمینوں پر ڈی۔ ڈی ۔اے کا قبضہ ہے اور کچھ پر ایم۔ سی ۔ڈی نے قبضہ جما رکھا ہے اور باقی پر بڑے بڑے سرمایہ داروں کا قبضہ ہے۔ اوبرائے ہوٹل (دہلی کا مشہور ہوٹل)، دہلی پبلک سکول یہ سب قبرستان کی زمین پر واقع ہیں۔ سیدّ محمود نجار کیلوکھری رحمتہ اللہ علیہ کی درگاہ کی زمین جو قبرستان کے استعمال کے لیے وقف تھی وہاں مزارات ختم کیے جارہے ہیں جبکہ یہ وقف بورڈ  کی نگرانی میں ہے۔ افسوس اب وقف بورڈ کی نگرانی میں بھی مزارات اور ان کی زمینیں محفوظ نہیں ہیں۔ (مزاراتِ اولیا دہلی، طبع دہلی 2006ئ)

اسی کتاب میں خواجہ سیدّ اسلام الدین نظامی سجادہ نشین و امام خلجی مسجد دربار حضرت شیخ نظام الدین اولیا  ؒ تحریر فرماتے ہیں:
دہلی کی زیادہ تر پرانی آبادی پاکستان چلی گئی اور دہلی کی درگاہوں، مزاروں اور دیگر مسلم عمارتوں پر پاکستان سے آئے ہوئے مہاجرین کا قبضہ ہو گیا۔ بعد میں ان میں سے کچھ مقامات کو مولانا ابو الکلام آزاد نے خالی کرایا۔ اس دوران زیادہ تر مزارات کے کتبے توڑ دیئے گئے جس کی وجہ سے اِن بزرگوں کے مزاروں کو پہچاننا دشوار ہو گیا۔ بہت سارے مزاروں پر قبضہ کرکے مکان بھی بنا لیے گئے۔ (مزاراتِ اولیا دہلی)

اِن عبارات سے آ پ نے اندازہ لگا لیا ہو گا کہ تقسیمِ بر صغیر کے بعد ہندوستان میں مزارات کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا۔ مسلمانوں کی چھوڑی ہوئی زمینوں کی حفاظت کے لیے مسلم وقف بورڈ قائم کیا گیا جس پر مسلمانوں کے اس مذہبی طبقہ کا قبضہ تھا جس کا سیاسی تسلط اور غلبہ ہندوستان میں کانگرس کے اتحادی ہونے کی وجہ سے قائم تھا۔ یہ لوگ اپنے فکری اور اعتقادی نقطہ نگا ہ کے لحاظ سے تصوف و روحانیت سے نہ صرف نابلد تھے بلکہ ذہنی طور پر اس کے مخالف بھی تھے۔ انہوں نے اپنوں میں درگاہوں اور مزارات کی زمینیںریوڑیوں کی طرح تقسیم کیں اور یوں یہ طبقہ مسلم ورثہ کی تباہی کا باعث بنا۔ سیدّ عبد الرحمن جیلانی دہلوی  رحمتہ اللہ علیہ کے دربار سے ملحقہ بھی وسیع زمین تھی جہاں ناجائز قابضین نے اپنے مکانات کی تعمیرات شروع کردیں۔ یوں یہ پورا علاقہ ’’مسلم وقف بورڈ کوارٹرز دہلی نمبر6‘‘ کے نام سے مشہور ہو گیا۔ اب آپؒ کا ایک چھوٹا سا مزار اور ملحقہ مسجد شاہ عبد الرحمن ہے۔ باقی تمام زمین اِن قابضین کے قبضہ میں جاچکی ہے۔ اب مزار کی جگہ پر قبضہ کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ مزار اب بھی مسلم وقف بورڈ کی تحویل میں ہے اور مزار کی نگرانی کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ سیدّ سلیم الزمان ہاشمی خود مخطوطہ میں لکھتے ہیں:
یہ خادمِ سادات سیدّ سلیم الزمان ہاشمی ولد حافظ قاری سیدّ احسان اللہ ہاشمی جو کہ دربار سیدّ عبد الرحمن جیلانیؒ کے گردو نواح میں رہائش پذیر ہے، اب تو یہ آثم اکیلا ہی فتنہ گروں کے درمیان اس دربار کی حفاظت پر مامور ہے، کمزور اور ناتواں عمر کے اِس حصہ میں فتنوں میں گھرا ہوا ہے۔تقسیمِ ہند کے بعد اس علاقہ پر فتنہ گروں اور قبضہ گروپوں نے قبضہ کر لیا ہے اور اِن کے ڈر کی وجہ سے کوئی یہاں نہیں آتا اور پھر کوئی سجادہ نشین بھی نہیں ہے جو لوگوں کو معلومات مہیا کر سکے۔دربار پر فتنہ پرور قبضہ کرنے اور اسے ختم کرنے کی عرصہ سے کوشش کر رہے ہیں اور دربار کی کافی زمین پر قابض ہو چکے ہیں لیکن اللہ کے خاص فضل و کرم سے کسی کی نگرانی اور سجادگی نہ ہونے کے باوجود آپ رحمتہ اللہ علیہ کا دربار محفوظ ہے۔

مزار کا پتہ: پرانی دہلی6۔لاہوری دروازہ سے مشرق کی جانب نزد صدر ریلوے سٹیشن ریلوے کالونی مسلم وقف بورڈ کوارٹرز دہلی6۔

Click to rate this post!
[Total: 1 Average: 1]

Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں